بجٹ میں کٹوتی سے یونیورسٹی پروگرامز اور تحقیقی عمل کی بندش کی صور ت میں نتائج برآمد ہوں گے ، ایچ ای سی

جمعہ 27 مئی 2022 22:32

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 مئی2022ء) ایچ ای سی گورننگ باڈی "کمیشن" نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کیلئے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسا کرنے سے گزشتہ دو دہائیوں میں کی گئی تمام کوششیں تباہ ہو جائیں گی۔ جمعہ کو آن لائن منعقد ہونے والے اپنے اجلاس میں کمیشن نے متفقہ طور پر حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے اور آئندہ بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو واجب الادا حصے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اس کٹوتی کی صورت میں اداروں کی بندش، یونیورسٹی پروگرامز کے خاتمے، فیکلٹی ممبران کی برطرفی، تحقیقی منصوبوں کی بندش اور بین الاقوامی اعلیٰ تعلیم کے معاہدوں کے خاتمے جیسے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

وزارت خزانہ نے اعلیٰ تعلیم کیلئے 104.983 ارب روپے کے معقول مطالبے کے مقابلے میں صرف 30 ارب روپے کی IBC (اشاراتی بجٹ کی حدیں) کے بارے میں بتایا۔

(جاری ہے)

یہ موجودہ سال (مالی سال 2021-22 ) کیلئے مختص بجٹ سے 45 فیصد کم ہے جو کہ 66.25 ارب روپے تھی۔اجلاس میں اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا گیا کہ ماہرین تعلیم اعلیٰ تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم ایک فیصد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن اگر جی ڈی پی کی تجویز کردہ رقم صرف 0.04 فیصد مختص کی جائے تو یہ پہلے سے ہی مشکلات سے دوچار اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔

یہاں تک کہ یونیورسٹیوں کو بنیادی اخراجات جیسے تنخواہوں، پنشن اور خدمات کی ادائیگی کے انتظامات کیلئے بھی مشکلات درپیش ہیں۔ کمیشن کے ارکان نے کہا کہ وہ ملک کی موجودہ مالیاتی صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں مگر اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو پہلے ہی نظر انداز کیا گیا ہے اور بجٹ میں اس کا کم سے کم مطلوبہ حصہ کبھی نہیں ملا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نئے اداروں کو اس بجٹ کے اثرات کو محسوس کیے بغیر بلا روک ٹوک چارٹر کیا گیا ہے۔

اگرچہ ملک میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی اور معیار کو بڑھانا ہر حکومت کا مشترکہ ایجنڈا ہے، مگر یہ مستحکم بنیادوں پر کافی مالی معاونت کے بغیر ناممکن ہے۔انہوں نے خبر دار کیا کہ پبلک یونیورسٹیوں کے پاس طلبائ کی فیس میں بے پناہ اضافہ کرنے، طلبائ کی تعداد کو استعداد سے زیادہ بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ اثرات اس شعبے کو تباہی کی طرف لے جائیں گے اور لرننگ اور گریجویٹس کے معیار کو بری طرح متاثر کریں گے۔

اراکین کو جمعرات کے روز ہونے والے وائس چانسلرز کے اجلاس کے بارے میں بھی بریف کیا گیا جس میں حکومت کو واضح پیغام دیا کہ بجٹ میں یہ کٹوتی اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے اور یونیورسٹیوں کو تعطل کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔ جمعرات کے روز پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے 120 سے زائد سربراہان نے متفقہ طور پر یونیورسٹیوں کے بجٹ میں غیر معمولی کٹوتی کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا اور وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر تعلیم پر زور دیا کہ وہ اس معاملے پر فوری طور پر غور کریں ب*اور104.983 ارب روپے کے معقول مطالبے کے مطابق بجٹ میں اضافہ کریں۔