بکر پرائز جیتنے والی بھارتی مصنفہ گیتانجلی شری کون ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 27 مئی 2022 20:40

بکر پرائز جیتنے والی بھارتی مصنفہ گیتانجلی شری کون ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2022ء) گیتانجلی شری کے ساتھ سبز لباس زیب تن کیے ڈیزی راک ویل بھی موجود تھیں، جنہوں نے ریت سمادھی کو ہندی سے انگریزی میں 'ٹومب آف سینڈز‘ کے نام سے منتقل کر کے یہ سنگ میل عبور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

جیوری کے سربراہ فرینک وائن نے کہا کہ ٹومب آف سینڈز کو 'بھرپور بحث‘ کے بعد 'کثرت رائے‘ سے اس سال کے انٹرنیشنل بکر پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ اس سے پہلے انہوں نے اس ناول جیسا کچھ نہیں پڑھا تھا۔

لندن میں یہ اعزاز وصول کرتے ہوئے گیتانجلی شری نے کہا، ''میں نے کبھی بُکر پرائز کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا، میں نے کبھی سوچا تک نہ تھا کہ میں (یہ اعزاز حاصل) کر سکتی ہوں۔

(جاری ہے)

کیسا عظیم اعتراف ہے یہ!‘ انہوں نے اپنی حیرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس عزت افزائی پر جیوری کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا۔

بکر پرائز کیا ہے، کیسے دیا جاتا ہے؟

جون 2004 میں فکشن سے منسوب بہت اہم ادبی ایوارڈ 'مین بکر پرائز‘ کی طرف سے اس کیٹیگری کا اعلان کیا گیا تھا، جو 2005 سے 2015 تک ہر دوسرے سال کسی بھی ایسے مصنف یا مصنفہ کو دیا جاتا رہا، جس کی تصانیف انگلش یا انگلش ترجمے کی صورت میں باآسانی دستیاب ہوں۔ چونکہ مین بکر پرائز محض دولت مشترکہ کے ممالک، آئرلینڈ اور زمبابوے تک محدود تھا، اس لیے اس انٹرنیشنل ایوارڈ سے دیگر بین الاقوامی ادیبوں کے لیے جیسے ایک نئی کھڑکی کھل گئی تھی۔

مین بُکر پرائز : برطانوی مصنفہ ہلیری مینٹل کے نام

یہ ایوارڈ دیتے وقت مصنف یا مصنفہ کی 'مسلسل تخلیقی صلاحیت، ترقی اور عالمی سطح پر افسانوی ادب میں مجموعی شراکت‘ مدنظر رکھی جاتی تھیں۔

2016ء میں انٹرنیشنل بکر پرائز کے ضوابط میں چند بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ یہ ایوارڈ سالانہ اور مجموعی کام کے بجائے ایک کتاب تک محدود کر دیا گیا۔

اب ضروری تھا کہ کتاب کی اصل زبان انگریزی نہ ہو، بلکہ یہ کسی بھی دوسری زبان سے انگریزی میں منتقل شدہ ہو، جس کی اشاعت برطانیہ یا آئرلینڈ میں ہوئی ہو۔

2016ء سے جنوبی کوریا، اسرائیل، پولینڈ، عمان، نیدرلینڈز اور فرانس کے مصنفین بالترتیب یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے۔ اب اسی فہرست میں گیتانجلی شری نے بھارت کا نام روشن کیا ہے، جو پورے جنوبی ایشیا کے لیے فخر کی بات ہے۔

گیتانجلی شری کا ناول ریت سمادھی

سات سے آٹھ سال تک کی طویل محنت اور مسلسل لگن کے بعد یہ ناول ہندی میں پہلی بار 2018 میں سامنے آیا۔ ادبی ہنگامی خیزی سے نسبتاً الگ تھلگ رہنے والی گیتانجلی شری تب اپنی مترجمہ ڈیزی راک ویل کے نام تک سے واقف نہ تھیں۔ جب ڈیزی نے ابتدائی طور پر چند صفحات ترجمہ کر کے بھیجے، تو انہیں بہت اچھا لگا کہ اس ترجمے میں ان کی تصنیف کی 'روح‘ برقرار تھی۔

ناول ایک 80 سالہ عورت کی کہانی ہے، جو اپنے خاوند کی موت کے بعد زندگی سے بیزار نظر آتی ہے۔ اپنے تازہ ترین انٹرویو میں گیتانجلی شری کہتی ہیں، ''ہمارے ارد گرد ایسے بے شمار بوڑھے افراد موجود ہوتے ہیں، جو بظاہر ایک کونے میں بیٹھ کر موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول، ''ایسے کسی انسان کی بیزاری نے میرے اندر تجسس بیدار کیا کہ آیا یہ بیزاری کسی نئے وابستگی کا پیش خیمہ تو نہیںِ‘‘ بہت سی چیزیں پہلے سے ان کے اندر چل رہی تھیں کہ یہ امیج وہ تحریک ثابت ہوا، جس کے بعد انہوں نے ریت سمادھی لکھا۔

یہ کہانی برصغیر کی تقسیم سے گزرتے ہوئے انسانی تعلقات، انسان اور کائنات کی مبہم کشمکش اور سماجی سطح پر قابل قبول اور ناقابل قبول رشتوں کی کہانی ہے۔

پولینڈ کی نوبل انعام یافتہ ادیبہ اولگا ٹوکارچوک، ارجنٹائن کی کلاؤڈیا پینیرو اور جنوبی کوریا کی مصنفہ بورا چنگ کو آخری مرحلے میں پیچھے چھوڑنے والی گیتانجلی شری کا ناول ٹومب آف سینڈز مقامی ثقافت کے مٹتے نقوش کو صفحات میں قید کرنے کی لازوال کوشش ہے جس کے چمک بین الاقوامی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔

گیتانجلی شری کون ہیں؟

بھارتی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی 65 سالہ گیتانجلی شری اب تک پانچ ناول اور کئی افسانے تحریر کر چکی ہیں لیکن ادبی منظر نامے پر ان کی بھرپور انٹری 'مائی‘ سے ہوئی۔ یہ ناول ہندوستان کے مٹتے ہوئے مقامی رنگوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک خاموش طبع اور سر جھکا کر جینے والی ایک گھریلو خاتون ہے۔

مائی کے دو بچے سبودھ اور سونینا نئی نسل کا روپ اور روایتی ہندو گھرانے میں بغاوت کی آواز ہیں، جو مائی میں خاندانی بندشوں کے خلاف کوئی شعلہ بیدار نہیں کر سکتیں۔

معروف ادیب انتظار حسین کو مائی پڑھ کر سیتا جی یاد آئیں۔ وہ مائی کو سیتا جی کی طرح 'ہندو تہذیب کی آدرشی عورت‘ کے طور پر دیکھتے تھے۔

ان کے بقول 'ہندو تہذیب نے جو نسوانی آدرش کا خواب دیکھا تھا، اس کا جلوہ اسے سیتا جی کی ذات میں نظر آیا۔

سو ہندو تہذیب میں جہاں جہاں عورت اس آدرش سے لگاؤ کھاتی نظر آئے گی، وہاں سیتا جی کی طرف دھیان بھی جائے گا۔‘‘

گیتانجلی شری کی ایک پہچان بطور نقاد بھی ہے، جس میں ان کی توجہ کا مرکز پریم چند ہیں۔ انہوں نے نہ صرف 'دو دنیاؤں کے درمیان: پریم چند کی فکری سوانح حیات‘ لکھی بلکہ پریم چند کے کام کو صنعتی، اقتصادی اور سماجی تاریخ کے آئینے میں پرکھنے کی کوشش بھی کی۔

تاہم گیتانجلی شری کا بنیادی میدان فکشن ہی ہے، جس میں انہوں نے تازہ ترین معرکہ سر کیا ہے۔

گیتانجلی شری کا اردو دنیا میں تعارف

آج اردو کی ادبی دنیا بشیر عنوان کی خاص طور پر ممنون نظر آئی کہ انہوں نے اس وقت گیتانجلی شری کو 'مائی‘ کے ترجمے سے اردو قارئین میں متعارف کروایا، جب انہیں انٹرنیشنل بکر پرائز ملنے کا دور دور تک کوئی امکان ہی نہیں تھا۔

مائی اردو میں کیسے ترجمہ ہوا، یہ بھی اپنی جگہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ دراصل انتظار حسین نے اس ناول کو ہندی میں پڑھا اور ابھی ختم ہی کیا تھا کہ آصف فرخی ان کے پاس آ پہنچے تھے۔ انتظار صاحب کے بقول، ''میں نے ان (آصف فرخی) سے کہا کہ تم ہندی فکشن کے بہت گن گاتے رہتے ہو۔ ذرا یہ ناول پڑھ کر دیکھو۔ اس عزیز نے کمال کیا۔ خاموشی سے اپنے بیگ میں رکھا اور کراچی چلا گیا۔

چند مہینوں کے بعد مجھے اس کی طرف سے ایک مسودہ موصول ہوا۔ یہ ناول کا اردو روپ تھا۔‘‘

یہ روپ بشیر عنوان نے دیا، جن کے بقول دونوں زبانوں کا بنیادی فرق سنسکرت اور عربی و فارسی تھا۔ وہ کہتے ہیں، ''سنسکرت آمیز زبان تقریباً پندرہ فیصد کے قریب تھی جسے اردو میں ڈھالتے ہوئے اچھی خاصی محنت کرنا پڑی۔‘‘

جب ڈی ڈبلیو اردو نے بشیر عنوان سے ریت سمادھی کو ترجمہ کرنے کے حوالے سے بات کی، تو انہوں نے کہا، ''اگر کسی پبلشر نے رابطہ کیا تو میں ضرور دلچسپی لوں گا۔

‘ مائی نسبتاً ایک مختصر ناول تھا جبکہ ریت سمادھی 739 صفحات پر مشتمل ہے۔ ہندی سے انگریزی میں منتقل کرنے والی مترجمہ ڈیزی راک ویل کو 50 ہزار پاؤنڈ کی انعامی رقم میں سے نصف ملے گی جبکہ اردو میں یہ کام فی سبیل اللہ کرنا پڑتا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ''ہمارے ہاں مارکیٹ محدود اور پبلشرز کے حالات خراب ہیں۔ اتنے طویل ناول کو نئی زبان میں ڈھالنے کے لیے اچھا خاصا وقت اور انتھک محنت چاہیے۔‘‘ امید ہے کہ بہت جلد کوئی اشاعتی ادارہ یہ تہذیبی ذمہ داری ادا کرے گا۔ گیتانجلی شری کا ہر وہ قاری جس نے مائی پڑھا ہے، وہ ریت سمادھی کو بھی جلد از جلد اردو میں پڑھنے کے لیے بے قرار ہے۔

فاروق اعظم، اسلام آباد