Live Updates

آئی ایم ایف پروگرام:حکومت تنخواہ دار طبقے اور پینشنرزپر بھاری ٹیکس لگانے جاری ہے. ڈاکٹر شاہد مسعود

غریب عوام کے نام پر دی جانے والی ”ٹارگٹیڈسبسڈی“سے صرف حکومت عہدیدران ‘بیورکریسی اور بڑی کمپنیوں کو فائدہ ہوتا ہے ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایسے تجربات ناکام ثابت ہوئے ہیں اور ان کے ثمرات عام شہریوں تک نہیں پہنچے. سنیئرتجزیہ نگار کی گفتگو

جمعہ 27 مئی 2022 22:29

آئی ایم ایف پروگرام:حکومت تنخواہ دار طبقے اور پینشنرزپر بھاری ٹیکس ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 مئی ۔2022 ) حکومت تنخواہ دار طبقے پر بھاری انکم ٹیکس لگانے جارہی ہے جس کے بعد ایک لاکھ تنخواہ والے ملازم کی تنخواہ 70ہزار رہ جائے گی اسی طرح پینشنرزپر بھی ٹیکس لگنا ہے عام استعمال کی چیزوں پر بھاری ٹیکس لگانے سے عام شہریوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑے گا.

(جاری ہے)

تجزیہ نگار ڈاکٹر مسعود نے نجی ٹی وی پراپنے پروگرام میں کہا کہ حکومت نے آئی ایف ایم کی شرائط من وعن تسلیم کرلی ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں پر بڑا سخت وقت آنے والا ہے جس کے بعد عوام عمران خان دور کی مہنگائی کو بھی بھول جائیں گے مسلم لیگ نون شہید بن کر نکلنا چاہ رہی ہے تاکہ انتخابات میں جانے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے لہذا وہ چاہ رہے ہیں کہ”گارنٹرز“ شرائط پوری کروانے کے لیے دباﺅ بڑھائیں گے تو نون لیگ پھر اپنے پرانے بیانیے پر چلی جائے گی کہ ہماری حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا.

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے 50ہزار روپے تنخواہ والے پر بھی ٹیکس لگانے کے لیے سخت دباﺅ تھا جسے گزشتہ حکومت نے ماننے سے انکار کردیا تھا جبکہ اس حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو ”پیکیج ڈیل“کی ہے اس میں 50ہزار روپے تک تنخواہ لینے والوں کو انکم ٹیکس کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے. انہوں نے کہا کہ بجٹ کے بعد مہنگائی کا اصل طوفان آئے گا جس سے عوام پس کررہ جائیں گے انہوں نے کہا کہ غریب عوام کے نام پر دی جانے والی ”ٹارگٹیڈسبسڈی“سے صرف حکومت عہدیدران ‘بیورکریسی اور بڑی کمپنیوں کو فائدہ ہوتا ہے ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایسے تجربات ناکام ثابت ہوئے ہیں اور ان کے ثمرات عام شہریوں تک نہیں پہنچے.

ادھر غیرملکی نشریاتی ادارے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرخزانہ ڈاکٹرحفیظ پاشا نے کہا کہ پاکستان میں ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے مہینے میں مہنگائی کی شرح ساڑھے تیرہ فیصد کے قریب تھی پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح سولہ سے سترہ فیصد ہو سکتی ہے پاکستان میں مہنگائی کی شرح جانچنے کی باسکٹ میں مختلف شعبوں کو دیکھا جائے تو اس میں تقریباً 35 فیصد خوردنی اشیا کا وزن ہے جبکہ ٹرانسپورٹ کے شعبے کا حصہ تقریباً چھ فیصد ہے.

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ معاشرے کے وہ افراد زیادہ متاثر ہوں گے جو مالی طور پر کمزور طبقات ہیں اور اس کے ساتھ اربن مڈل کلاس اس اضافے سے زیادہ متاثر ہوگی انہوں نے کہا کہ ملک میں دو کروڑ رجسٹرڈ موٹر سائیکلیں ہیں اور پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے ان کا فیول خرچہ بڑھ جائے گا. ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے اس سلسلے میں بتایا کہ ڈیزل و پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے لازمی طور پر عام فرد بہت زیادہ متاثر ہوگا کیونکہ ناصرف ذاتی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا خرچہ بڑھ جائے گا بلکہ گڈز ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھنے سے عام ضروریات کی چیزیں بہت زیادہ مہنگی ہو جائیں گی.

ڈاکٹر نجیب نے بتایا کہ عام آدمی کو پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے بچانے کے لیے حکومت کو فوری اقدام اٹھانے پڑیں گے، جس میں وفاقی حکومت کے انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اہل خاندانوں کے ساتھ رکشہ، موٹر سائیکل اور زرعی مقاصد کے لیے چلنے والے ٹیوب ویل پر سبسڈی دینا ہو گی تو دوسری جانب حکومت کو ٹول پلازوں پر گڈز ٹرانسپورٹ سے لیا جانے والے ٹول کو ختم یا کم کرنا چاہیے تاکہ گڈز ٹرانسپورٹ ڈیزل کی بڑھی ہوئی قیمت کا پورا اثر لوگوں تک منتقل نہ کریں.

ڈاکٹر خاقان نجیب نے بتایا کہ پاکستان میں ماہانہ وفاقی حکومت چلانے کا خرچ چالیس ارب روپے جب کہ تیل پر دی جانے والی سبسڈی کی مالیت ماہانہ بنیادوں پر 118 روپے تک پہنچ گئی جو حکومتی خزانے پر بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے اور پاکستان کے مالیاتی خسارے کو بڑھا رہی ہے ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ ماہانہ بنیادوں پر سبسڈی کی جو مالیت بنتی ہے اس حساب سے ملک کو سالانہ بنیادوں پر بارہ سو ارب روپے کی سبسڈی ادا کرنا پڑتی ہے جب کہ وفاقی حکومت کا سالانہ خرچہ چار سو ارب روپے ہے.

انہوں نے بتایا کہ یہ بارہ سو ارب کا نقصان اس ملک کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جس کا بجٹ خسارہ اس مالی سال کے اختتام پر پانچ ہزار ارب روپے ہو جائے گا جبکہ آئی ایم ایف پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ خسارے کو 3500 ارب روپے کی حد تک لے کر آئیں‘ماہرین معیشت کے مطابق ملک کی معاشی حالت تیل مصنوعات پر دی جانے والی ماہانہ اربوں کی سبسڈی کا متحمل نہیں ہو سکتی جس کی وجہ سے ملک کے بجٹ کا خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے بھی پاکستان کے قرضے پروگرام کی بحالی کو روک رکھا ہے.

ماہرین کے مطابق تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی تو متاثر ہوگا تاہم طویل مدتی پالیسی کے تحت اگر اسے دیکھا جائے تو یہ ملک کی معاشی صورتحال کے لیے بہتر ہے کہ ملک کا بجٹ کا خسارہ کم ہوگا اور اس کا مثبت اثر عالمی مالیاتی اداروں سے فناننسگ حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے گا. ڈاکٹر حفیظ پاشا حکومت کی جانب سے ڈیزل و پیٹرول کی سبسڈی جزوی طور پر ختم کرنے ا ور اس کی قیمتیں بڑھانے کے بارے میں کہتے ہیں کہ جو سبسڈی ابھی موجود ہے وہ بھی آنے والے دنوں میں ختم ہو جائے گی کیونکہ پاکستان کو بجٹ بنانے کے لیے پیسے چاہییں اور یہ آئی ایم ایف کے بغیر ممکن نہیں ہے.

انہوں نے کہا پاکستان کو موجودہ مالی سال کے اختتام تک سات ارب ڈالر بیرونی ادائیگیوں کے لیے چاہییں جبکہ اگلے سال کے لیے 30 ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی ان کے مطابق اس رقم کے ہونے سے پاکستان کے بیرونی ادائیگیوں کے شعبے میں استحکام آئے گا اور یہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ممکن نہیں ہے انہوں نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف سے ملنے والے چند ارب ڈالر نہیں ہیں بلکہ دوسرے مالیاتی اداروں سے ملنے والے پیسے بھی ہوں گے، جو کسی ملک کو پیسے دینے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف دیکھتے ہیں.

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ سبسڈی کے خاتمے سے مالیاتی خسارہ کم ہوگا اور ملک کے بیرونی شعبے میں ادائیگیوں کو سہارا ملے گا کیونکہ اس سبسڈی کی صورت میں پیسے پاکستان آئیں گے ڈاکٹر خاقان نجیب نے بتایا کہ جب سبسڈی دی جاتی ہے تو ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے اور اس کے خاتمے سے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی جو ملک کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے.
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات