اسلام آباد ہائیکورٹ ،مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 9جون تک ملتوی

جمعرات 2 جون 2022 17:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 جون2022ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 9جون تک ملتوی کر دی ۔آئندہ سماعت پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز دلائل جاری رکھیں گے ۔جمعرات کو عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی ۔

اس موقع پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر اپنے وکیل امجد پرویز کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے ۔دوران سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پارلیمنٹ سے نیب ترمیمی بل منظور ہوا ہے، ابھی تو صدر نے دستخط ہی نہیں کئے، قانون ہی نہیں بنا۔

(جاری ہے)

فاضل جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ جب صدر کے دستخط سے قانون بنے گا تو پھر دیکھیں گے،ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سوموٹو نوٹس لیا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس سوموٹو کا اس کیس سے کیا تعلق ہے۔دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر اور گزشتہ حکومت میں تعینات پراسیکیوٹر بھی آج موجود ہیں۔مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی یہ عدالت کے سامنے کھڑے ہیں۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد نیب کا موقف تبدیل ہو سکتا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سرادر مظفر عباسی سے استفسارکیا کہ کیا آپ آج دلائل نہیں دینا چاہتے۔ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں دلائل دے دیتا ہوں، یہ اس دوران انتظار کر لیں۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب یہ بتائے کہ آج دلائل دینا چاہتا ہے یا نہیں؟چیئرمین نیب اگر چلا بھی جاتا ہے تو ڈپٹی چیئرمین کے پاس عارضی چارج ہو گا، کیا چیئرمین نیب کے جانے کے بعد نیب ختم ہو گئی ہے؟ ۔

نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ آج تک کے قانون کے مطابق چیئرمین کے بغیر نیب کچھ بھی نہیں۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر نے اپنے وکیل کے ذریعے 22 اگست 2017 کو نوٹس کا جواب دیا، تفتیشی افسر نے عبوری تفتیشی رپورٹ تیار کرتے ہوئے ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی،تفیتشی رپورٹ کی بنیاد پر سات ستمبر 2017 کو ریفرنس دائر کردیا گیا، سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی نظر ثانی درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔

سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، جولائی 2017 کو جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع ہوئی،28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا، ڈی جی نیب نے تین اگست 2017کو تفتیش کی منظوری دی، 18 اگست کو مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو نیب نے طلبی کا نوٹس جاری کیا، انیس اکتوبر 2017 کو ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی اپیل میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم ٹین فراہم نہیں کیا گیا، پراسیکیوشن نے کہا کہ تحقیقات جاری ہیں اور والیم ٹین کی دستاویزات کی روشنی میں کسی کو گواہ نہیں بنایا گیا، یہ بھی کہا گیا کہ والیم ٹین سپریم کورٹ کے حکم پر سربمہر ہے،والیم ٹین باہمی قانونی معاونت کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ خط و کتابت پر مشتمل ہے، اسی نکتے کی بنیاد پر دستاویزات کی فراہمی سے انکار کیا گیا، درخواست انیس اکتوبر کو خارج ہو گئی، اس کیس کے حوالے سے جو درخواست آئی وہ سماعت والے روز ہی خارج ہوئی، نو اکتوبر 2017 کو نیب ریفرنس کی نقول تقسیم کی گئیں، والیم ٹین فراہم کرنے کی درخواست خارج کی گئی، جو بھی درخواست آئی خارج ہوئی دن میں تین تین درخواستیں خارج ہوئیں،19 اکتوبر 2017 کو فرد جرم عائد کی گئی،واجد ضیا نے نہیں بتایا کہ ایم ایل اے کیسے گئی اور سوال کیا بھیجا تھا۔

فاضل جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا وہ کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ تھا؟ سپریم کورٹ کا ایسا کوئی آرڈر ہے؟ ۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر ایک ڈاکومنٹ ٹرائل میں کسی ملزم کے خلاف استعمال ہونا ہے تو وہ ملزم کو دینا ہوتا ہے ۔مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ مجھے سزا ہی ان خطوط پر دی گئی ہے، کامن سینس کی بنیاد پر جرح کی تھی کہ خط کس کو لکھا؟ جواب کیا آیا؟۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ والیم ٹین کا ریکارڈ نہیں دیا گیا تو وہ تو آپ کے خلاف بھی استعمال نہیں ہو سکتا۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ باہمی قانونی معاونت کے چار پانچ خطوط فراہم کر دئیے گئے تھے۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ڈاکومنٹ دینے کا مقصد ہوتا ہے کہ وہ اپنا دفاع تیار کر لے، ملزم ٹرائل میں عدالت کا لاڈلہ بچہ ہوتا ہے ۔

مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں تو اخبارات پڑھ کر جرح کرتا رہا۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ضمنی ریفرنس کے ساتھ کوئی اضافی ڈاکومنٹس لگائے گئے؟ ۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی تقریر اور انکے صاحبزادے حسن نواز ، حسین نواز اور صاحبزادی مریم نواز کے انٹرویوز کو حصہ بنایا گیا،فرانزک ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے کی فونٹ کے حوالے سے رپورٹ کو حصہ بنایا گیا، قانون کہتا ہے کہ ہر جرم کی چارج شیٹ واضح ہونی چاہئے، ایک بات لکھ کر کہہ دیا کہ آپ نے یہ جرائم اور ان میں معاونت کی، اس کیس میں انصاف کا قتل ہوا۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی کے درمیان میں بولنے پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کراس ٹاک کرنی ہے؟ آپ آٹھ بجے کے شو میں تو نہیں بیٹھے ،ایک دستاویز کسی کیخلاف استعمال ہونی ہے تو اس کا طریقہ کار موجود ہے ۔امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ میں اخبارات پڑھ کر جرح کرتا رہا کہ کوئی ایم ایل اے بھیجی گئی ہے،19 اکتوبر 2017 کو فرد جرم عائد کی گئی، نیب آرڈیننس 1999 کے تحت فرد جرم میں ترمیم کے لیے درخواست آئی،8 نومبر 2017 کو درخواست منظور ہوئی۔

احتساب عدالت نے تمام ملزمان کو کرپشن اور بددیانتی کے الزامات سے بری کیا،ملزمان کو آمدن سے زائد اثاثوں پر قید بامشقت اور جرمانوں کی سزا سنائی گئی، 16 گواہوں کی شہادتیں مکمل ہو چکی تھیں جب 17 اپریل 2018 کو پراسیکیوشن نے ڈی جی نیب کو سمن کرنے کی درخواست دی، باہمی قانونی معاونت کے خطوط کی فراہمی کا ریکارڈ فراہم کرنے کے لیے گواہ کو سمن کرنے کی درخواست منظور ہوئی،تین جولائی 2018 کو حتمی دلائل ہوئے، پانچ جولائی کو سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے درخواست دی کہ حتمی فیصلے کا اعلان موخر کیا جائے، سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور مریم نواز لندن میں تھے جہاں کلثوم نواز بستر مرگ پر تھیں مگر یہ درخواست مسترد کر دی گئی،مریم نواز، نواز شریف اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر فیصلے کے بعد واپس آئے،ہائی کورٹ نے اپیل کنندگان کی سزا معطلی کا فیصلہ سنایا، احتساب عدالت نے تمام ملزمان کو کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے الزامات سے بری کیا،آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات میں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی گئی،کرپشن کے الزامات میں بریت کے خلاف نیب نے کوئی اپیل دائر نہیں کی ۔

فاضل جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جب ضمنی ریفرنس یا چالان آ جائے تو چارج میں ترمیم نہ کرنے کے کیا اثرات ہیں؟۔امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اس بات کے کیا اثرات ہیں؟میرے کیس میں اس کے اثرات ہیں۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حتمی دلائل میں آپ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ضمنی چالان کے بعد چارج شیٹ میں تبدیلی کے کیا اثرات ہونگے۔

مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس میں ذرائع آمدن کی تحقیقات ہی نہیں کی، نیب نے ایون فیلڈ اثاثوں کی قیمتوں کا تعین بھی نہیں کیا،آمدن اور اثاثوں کی قیمتوں کے تعین کے بغیر اثاثہ جات کیس میں کیسے سزا دی جاسکتی ہے۔اسلام آبادہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر مزید سماعت 9جون تک ملتوی کردی ۔مریم نواز کے وکیل امجد پرویز آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں گے ۔