Live Updates

سینٹ ،آئی ایم ایف نے 440 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا کہا ہے، اصل بجٹ اب آئے گا، شوکت ترین

آپ تو وزیراعظم ہائوس سے ہیلی کاپٹر کیذریعے بنی گالا جاتے تھے،آپ نے کشکول توڑتے توڑتے پاکستان کا قرضہ ڈبل کردیا، شیری رحمن

جمعرات 23 جون 2022 23:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جون2022ء) سینٹ میں اپوزیشن نے ایک بار پھر آئندہ مالی سال کے بجٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ آئی ایم ایف نے 440 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا کہا ہے، اصل بجٹ اب آئے گا ،اقتصادی سروے میں ہر چیز مستحکم تھی تو کس بات کا دیوالیہ ،دیوالیہ کچھ بھی نہیں ،صرف آپ کی نااہلی ہے۔سینٹ کا اجلاس جمعرات کو چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے کہاکہ سینیٹ فنانس کمیٹی نے نہایت تفصیل سے اپنی سفارشات مرتب کی ہیں،امید ہے قومی اسمبلی ان سفارشات سے استفادہ حاصل کرے گی۔

انہوںنے کہاکہ آرٹیکل 160کے تحت ہر پانچ سال این ایف سی آتا ہے،آئین کے تحت این ایف سی میں صوبوں کا حصہ پچھلے ایوارڈ سے کم نہیں ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ 2010کے این ایف سی ایوارڈ ابھی تک معرض وجود میں ہے ،2015میں ایک نیا این ایف سی تشکیل دی گئی مگر مکمل نہیں ہو سکی،صدر عارف علوی نے بھی این ایف سی تشکیل دی،اس میں مشیر خزانہ کو این ایف سی چیئرکرنے کی اجازت دی گئی،اگلے بجٹ سے پہلے این ایف سی تشکیل یقینی بنائی جائے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ این ایف سی میں غربت کو بھی مدنظر رکھ کر حصہ دیا جائے،خیبر پختونخوا کیساتھ فاٹا کے انضمام کے بعد آبادی بڑھ گئی ہے۔ اجلاس کے دور ان بلوچستان میں حلقہ بندیوں کے معاملے پر سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی ۔رپورٹ چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج حیدر نے پیش کی۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ حلقہ بندیاں 2017کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئی،مختلف آبادیوں کے مابین فرق مساوی آبادی اور انتظامی باونڈری ہیں۔

انہوںنے کہاکہ الیکشن کمیشن نے مساوی آبادی کو نظر انداز کیا ،صرف انتظامی بائونڈری کو ترجیح دی گئی،اگر انتظامی بائونڈری حلقہ بندی میں رکاوٹ ہو تومساوی آبادی کو ترجیح دی جائے گی،حلقہ بندیاں ساتویں مردم شماری کے تحت ہی ہونے تھے۔سنیٹر دنیش کمار نے کہاکہ 2017کی مردم شماری کے تحت 2018میں حلقہ بندیاں ہوئیں،الیکشن کمیشن کو کیا ضرورت پڑی کہ یکا یک سارے حلقہ بندیوں کا اڑ دیا گیا،سینیٹ کمیٹی نے فوری نوٹس لیا ،امید ہے الیکشن کمیشن کمیٹی کی سفارشات کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔

سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہاکہ پتہ نہیں الیکشن کمیشن نے گھر بیٹھے کیسے حلقہ بندیاں کیں،کیسے ایک علاقے کو اٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیا گیا،الیکشن کمیشن نے اسٹیک ہولڈرز کو بلایا بھی نہیں ۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ فاٹا کے احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے فاٹا کو خیبرپختو نخوا کے ساتھ انضمام کیا گیا،ٹارگٹ کلنگ اور محرومی اب بھی جاری ہے مگر وہاں کے چھ حلقے ختم کر دیئے گئے،فاٹا کی حلقہ بندیوں پر بھی اعراضات ہیں،وزیرستان کی آبادی کو 48لاکھ بتایا گا جبکہ اس وقت آبادی ایک کروڑ سے کسی طور کم نہیں۔

سینیٹر دوست محمد نے کہاکہ ہمارے ساتھ اس وقت سخت نا انصافی ہو رہی ہیں،ہمارے نوجوان کسی بھی وقت طالبان سے مل جائیں گے،فاٹا کے نوجوان طالبان کی طرف دیکھ رہے ہیں،فاٹا کے حلقہ بندیوں کے معاملے پر تحفظات دور کی جائیں۔ چیئر مین سینٹ نے کہاکہ اس معاملے کو کمیٹی کوبھجوادی ہے،وہاں بھرپور بحث کریں۔ ایوان میں بجٹ پر بحث کے دور ان سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ بجٹ کو آئی ایم ایف کا کہہ کر بجٹ پر تنقید کی جا رہی ہے،کونسی حکومت آتے ہی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے،بالکل یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے،اس پر کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے،یہ ورثہ بھی پی ٹی آئی کی سابق حکومت کا تحفہ ہے۔

انہوںنے کہاکہ بجٹ کی وجہ سے ہمیں راتوں کو نیند نہیں آتی،آئی ایم ایف کی شرائط آج ماضی سے بہت سخت ہیں،اس لئے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ انہوںنے کہاکہ آپ تو وزیراعظم ہائوس سے ہیلی کاپٹر کیذریعے بنی گالا جاتے تھے،آپ نے کشکول توڑتے توڑتے پاکستان کا قرضہ ڈبل کردیا۔ انہوںنے کہاکہ سابق حکومت نے پاکستان کا قرضہ 25ہزار ارب سے سود ملا کر پچاس ہزار تک پہنچایا۔

شیری رحمن نے کہاکہ آپ نے پانچ سوارب کے ان ڈکلیرڈ کی سبسڈی دی،آپ نے سوچا ہم تو جا رہے ہیں پاکستان جائے بھاڑ میں،پاکستان کیخلاف اصل سازش پی ٹی آئی کی حکومت نے کی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا،آپ نے خارجہ امور کو ایک کوڑے میں ڈالا،پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ سابق وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے کہاکہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ایک اوربجٹ آ رہا ہے،کیا ہم لا تعلق ہے،حکومت 438ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کرنے جا رہی ہے۔

انہوںنے کہاکہ اقتصادی سروے میں ہر چیز مستحکم تھی تو کس بات کا دیوالیہ دیوالیہ کچھ بھی نہیں ،صرف آپ کی نااہلی ہے،یکدم آپ کے وقت میں لوڈشیڈنگ کیسے شروع ہوئی،اس وقت درآمدات ستر نہیں 78ارب کے ہیں، ہم نے آپ کیلئے بہترین معیشت چھوڑ کرگئے آپ نے تین ماہ میں تباہ کر دیئے۔قائد ایوان سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ ہر طرف دودھ کے چشمے پھوٹ رہے تھے یا شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں تو ہم حکومت میں آتے ہی کیوں،اگر معیشت ٹھیک جارہی تھی تو کتنے گورنر اسٹیٹ بینک تبدیل کئے،کتنے چیئرمین ایف بی آر کوتبدیل کئے،انرجی کی سپلائی لائن کو ادھورا چھوڑنے پر انرجی کا بحران پیدا ہوا۔

انہوںنے کہاکہ احتساب کے نام پر لوگوں کیساتھ جو سلوک کیا گیا اس وجہ سے سرکاری ملازمین نے کام کرنا چھوڑ دیا،ہم نے امیر کے اوپر مزید ٹیکس لگائے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے آئل پرسبسڈی ختم کردی،حکومت چودہ ارب پٹرولیم سبسڈی برداشت نہیں کر سکتی،حکومت پاکستان نے پچھلے چار سال میں جومعاہدے کئے وہ ملکی مفاد میں نہیں تھے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی خاطر ہم نے اس کڑوے گونٹھ کوپی کر معاہدے کو آن کیا،وزیراعظم شہباز شریف نے انکو بھی ملکی معیشت کی بہتری کیلئے ساتھ دینے کا مشورہ دیا،انہوں نے مگر پارلیمنٹ کی بجائے سڑک پر ڈیرے ڈال دیئے،کھوکھلے دعوئوں سے ملک کے حالات بہتر نہیں ہونگے،آپ کے وعدے کو تو پوری قوم نے دیکھ لیا۔

اجلاس کے دور ان سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ،ریونیو اور اقتصادی امور کی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی چیئرمین کمیٹی سینیٹر مانڈوی والا نے رپورٹ پیش کی۔ سلیم مانڈی والا نے کہاکہ کمیٹی ممبران نے سیاست سے بالاتر ہوکرکام کیا،تمام ممبران نے زیادہ تر متفقہ سفارشات دیں،کمیٹی نے گریڈ ون سے سولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی سفارش کر دی۔

چیئرمین کمیٹی نے سینیٹ فنانس کمیٹی کو مبارکباد دی ،سینیٹ نے سینیٹ فنانس کمیٹی کو ایڈاپٹ کر لیا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ میں ماضی کے مرثیے دہرانا نہیں چاہتا،ریاست بغیر گول کے چل رہی ہے،فیصلے کرنے کیلئے مشاورت ضروری ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ غیر معمولی وقت ہے،ستر سال سے ہم اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں دخل انداز کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں،ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے الیکشن کمیشن آزادنہ کام کام کرے گی،عدالتیں ایسے فیصلے کریں گی جس کو پوری دنیا سراہے گی۔

انہوںنے کہاکہ ہم پرانے طریقہ کار پر چل ہے ہیں،ہر جگہ یہ کہا جا رہا ہے کہ سیاسی استحکام کے بعد معاشی استحکام آئے گا،میں سمجھتا ہوں کہ معاشی استحکام کے بغیر سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ انہوںنے کہاکہ کسی ملک کی بھیک سے ہم کرترقی کر لے گا یہ بھول ہو گی،اگر کسی دوسرے ملک کی بھیک سے ترقی ممکن ہوتی تو پاکستان ترقی یافتہ ہوتا۔سابق وزیراعظم و سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی تیاری نہیں تھی، انہیں حکومت میں نہیں آنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں معیشت کا پہیہ جام کیا گیا، کرنٹ اکائونٹ خسارہ 15 ارب روپے تک پہنچ گیا، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے، پی ٹی آئی کو جب پتہ چل گیا کہ ان کی حکومت جا رہی ہے تو انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ بین الاقوامی وعدے پورے نہ کئے، پٹرول کی قیمت 10 روپے فی لیٹر اور بجلی کی قیمت 5 روپے فی یونٹ کم کی گئی اور یہ قیمتیں جون تک برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جس سے عوام پر بوجھ پڑا، ہم عبوری حکومت بنا سکتے تھے لیکن اس کے پاس اختیار نہیں ہوتا، ہم نے مشکل راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، مشکل اور غیر معمولی فیصلے کئے، عوام بھی عالمی سطح کی صورتحال سے بھی آگاہ ہیں، امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک مہنگائی سے متاثر ہوئے ہیں، موجودہ حکومت کے معاشی اقدامات کے باعث ڈالر کی قیمت کم ہو گی، درست فیصلے لیں گے تو آئی ایم ایف چین سمیت دیگر ادارے معاہدے کریں گے، ہم انتخابات جیتنے کے لئے مقبول عام فیصلے کر سکتے تھے لیکن ہم نے ملک کے مفاد میں فیصلہ کیا۔

کورونا، روس اور یوکرین جنگ کے باعث پاکستان سمیت پوری دنیا کو کساد بازاری کا سامنا ہے، پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں عالمی کساد بازاری تھی، بمپر کراپ کے باعث ہم نے غذائی اجناس برآمد کریں، سمگلنگ کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے گئے، ہم معیشت کو بہتر بنانے کے لئے غیر روایتی اقدامات کرنا ہوں گے، گزشتہ تین سال میں قرضوں میں 20 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

آئندہ مالی سال 2022-23 کے بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے تفصیلی بحث کے بعد بجٹ سے متعلق تجاویز دیں جس پر شکرگزار ہوں، سابق وزیر خزانہ چند سوالات کا جواب دیں، جب سابق حکومت کا اقتدار ختم ہوا تو مالیاتی خسارہ دوہرے ہندسے میں تھا، بھاری گردشی قرضہ چھوڑ گئے، سبسڈی غلط طریقہ سے دی، ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا، کریڈٹ ریٹنگ کم کی گئی، زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین تھے، غذائی اجناس درآمد کرنا پڑ رہی ہیں، جھوٹ مت بولیں سچ کو سچ رہنے دیں، اس مشکل صورتحال میں ہم نے یہ بجٹ پیش کیا، یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم بین الاقوامی وعدے کیوں پورے کر رے ہیں، مہذب ممالک اپنے عالمی سطح پر کئے گئے وعدے پورے کرتے ہں، یہ کرکٹ کا کوئی میچ نہیں، ہم اپنی معیشت کو مستحکم کر رہے ہیں، ماضی کی حکومت نے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ جو شرائط مانیں انہی پر عمل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس لیوی اور قیمتیں بڑھانے کا سابق حکومت نے وعدہ کیا، آئی ایم ایف کے تحت پروگرام کے باوجود عام آدمی کو ریلیف دینے کے خواہاں ہیں، ان حالات میں اس سے اچھا بجٹ نہیں بنایا جا سکتا، عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے پٹرولیم پر سبسڈی، 40 ہزار سے کم آمدن والوں کو دو ہزار روپے، آٹا، دال، گھی، چینی سمیت کئی چیزوں پر سبسڈی دے رہے ہں، زراعت کی ترقی کے لئے زرعی پیکج دے رہے ہیں، صاحب ثروت پر ٹیکس لگا رہے ہیں، حکومت کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، حکومت کے اخراجات کم کرنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، 80 فیصد براہ راست ٹیکس لگا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافہ نہ ہو، بجٹ خسارہ کم کر رہے ہیں، عالمی مہنگائی سے بچنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، انکم ٹیکس سے متعلق 29 تجاویز ملی ہیں، 21 سیلز ٹیکس سے متعلق ہیں، ان میں سے متعدد تجاویز قبول کرتے ہیں، ہم مل بیٹھ کر بجٹ بنانا چاہتے ہیں، سب کی تجاویز سننے کے خواہاں ہیں، یہ ہم سب کا ملک ہے، اس کی ترقی کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 27 تجاویز نئے ضم ہونے والے اضلاع سے متعلق ہیں، ان پر غور کریں گے، یہ سیاست سیاست نہ کھیلیں، مل کر بیٹھیں اور مل کر کام کریں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات