پاکستان: افغان شہریوں کا مغربی ممالک میں سیاسی پناہ کا مطالبہ

DW ڈی ڈبلیو پیر 27 جون 2022 19:40

پاکستان: افغان شہریوں کا مغربی ممالک میں سیاسی پناہ کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جون 2022ء) ان کیمپوں میں کئی افغان خاندان خواتین اور بچوں سمیت یہاں رہ رہے ہیں۔ یہاں پولیس کی بھی بھاری نفری موجود رہتی ہے۔ ان مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جنگ زدہ ملک میں ان کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں اور یہ کہ انہیں مہاجرین کا درجہ دیا جائے اور مغربی ممالک میں سیاسی پناہ دی جائے۔

کچھ دنوں پہلے اور گزشتہ ماہ بھی مظاہرین نے ڈی چوک تک جانے کی کوشش کی تھی، جہاں پولیس نے ان کو روک لی تھا۔ مظاہرین نے اپنے کیمپوں کے باہر 'کل اس‘ یعنی ہمیں قتل کر دیں یا ہمیں ختم کردیں کے سفید بینرز لگائے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ مظاہرہ حکومت پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ مظاہرین کے بقول بین الاقوامی برادری کے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے ہے۔

(جاری ہے)

مظاہرین میں زیادہ تر ہزارہ شیعہ کی تعداد ہے۔ ان میں کچھ ازبک اور تاجک اور دوسری افغان قومیتوں کے افراد بھی شامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے سید علی ظفر، جن کا تعلق افغانستان کے ایک شمالی علاقے سے ہے، نے بتایا، ''جب طالبان اقتدار میں آئے، تو کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے میرے بھائی اسد اللہ کو قتل کر دیا، جس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ شیعہ ہزارہ تھا۔

وہ سفر میں تھا اور کام سے کہیں جارہا تھا۔ اس کو چیک پوسٹ پر روک کے مارا گیا۔ اس واقعے سے نہ صرف ہمارے خاندان بلکہ کئی ہزارہ خاندانوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔‘‘

سید علی ظفر کے مطابق ہزارہ شیعوں کی افغانستان میں زندگی محفوظ نہیں ہے۔ ''اور انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ وہاں جائیں گے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا یا ان پر حملے ہوں گے۔

‘‘

سید علی ظفر کے مطابق وہ شمالی علاقے میں نرس کے طور پر کام کرتے تھے۔ ساتھ بچوں کے والد سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ اس کے ایک بیٹے علی صالح کو کینسر ہے اور اس کا پاکستان میں علاج نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ علاج کسی مغربی ملک میں ہی ممکن ہے۔

مظاہرین کے مطالبات کے حوالے سے سید علی ظفر کا کہنا ہے، ''ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں مغربی ممالک میں سیاسی پناہ دی جائے اور جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوتا، اقوام متحدہ ہمیں مہاجر کا درجہ دے کیونکہ اس درجے کے بغیر نہ تو میں نوکری کر سکتا ہوں اور نہ میرے بچے پڑھ سکتے ہیں۔

‘‘

سید علی ظفر کی زوجہ لطیفہ احمدی کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں مڈوائف کے طور پر کام کر رہی تھی۔ ''لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کام کرنا انتہائی مشکل ہو گیا اور میرے خاوند کے بھائی کے قتل کے بعد سارے خاندان میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے اور اب ان سب کا یہ خیال ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کو امریکہ، کینیڈا یا کسی مغربی ملک میں ہی محفوظ سمجھیں گے۔

‘‘

لطیفہ احمدی کا مزید کہنا تھا کہ وہ ہلمند اور قندھار میں کام کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا، ''افغان طالبان کے آنے کے بعد مجھ سمیت ہزاروں خواتین کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئی ہیں اور وہ خوف اور ڈر کے مارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتی۔‘‘

کیمپ میں موجود بامیان سے تعلق رکھنے والے ایک پڑھے لکھے نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہزارہ افراد کو نہ صرف لسانی بلکہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔

طالبان یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کے ملازمین کو نشانہ نہیں بنائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سابق حکومت کے ملازمین کو ٹارگٹ بھی کر رہے ہیں اور ان پر تشدد بھی کر رہے ہیں۔‘‘

اس نوجوان کا کہنا تھا کہ کیمپوں میں بیٹھے احتجاج کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ہزارہ شیعہ کی ہے، جس میں بہت سارے یا تو اشرف غنی کی حکومت میں سویلین پوسٹوں پر کام کرتے تھے یا پھر وہ بین الاقوامی تنظیموں سے وابستہ تھے۔

‘‘

اس نوجوان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور مغرب کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو سیاسی پناہ دے جن کی جان خطرے میں ہے۔ '' ہزارہ لوگوں کی جان خطرے میں ہیں۔ یہ کوئی ایسا دعویٰ نہیں ہے جس کی جانچ پڑتال نہ کی جا سکے۔ ان کو نہ صرف طالبان کی طرف سے خطرہ ہے بلکہ دوسرے دہشت گرد عناصر بھی ان کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ لہذا ہماری بین الاقوامی برادری سے اپیل ہے کہ وہ ہمیں سیاسی پناہ دیں اور جب تک کہ سیاسی پناہ نہ ملے ہمیں مہاجر کا درجہ دیا جائے۔‘‘