Live Updates

وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں مختلف درخواستوں کا پس منظر

جمعرات 30 جون 2022 15:30

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جون2022ء) وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں مختلف درخواستوں کا پس منظر اس طرح سے ہے ۔ 16 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیراعلی منتخب ہوئے تھے، ان کو منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ 186 ووٹوں سے 11 ووٹ زیادہ ملے تھے۔حمزہ شہباز کو وزارت اعلی کے انتخاب میں ووٹ دینے والوں میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین بھی شامل تھے۔

پی ٹی آئی نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، صدر مملکت کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آرٹیکل 63۔اے کے تحت پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے اراکین اسمبلی نہ صرف ڈی سیٹ ہوں گے بلکہ ان کا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں منحرف اراکین کے خلاف پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا جس پر فیصلہ دیتے ہوئے 20 مئی کو الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا تھا جس کے بعد ایوان میں حمزہ شہباز کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 197 سے کم ہو کر 172 رہ گئی تھی۔

الیکشن کمیشن نے وزیر اعلی کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار چوہدری پرویز الہی کے بجائے مسلم لیگ (ن)کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت میں ووٹ دینے والے 25 منحرف اراکین کی صوبائی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا نوٹی فکیشن 23 مئی کو جاری کیا تھا۔ذمنحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں مقف اپنایا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کے باعث حمزہ شہباز کے پاس مطلوبہ نمبرز نہیں ہیں، اس لیے ان کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے۔

چوہدری پرویز الہی، جو پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ق) کے وزیر اعلی کے امیدوار بھی تھے، نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ حمزہ شہباز نے وزیر اعلی منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہیں کیے، کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کے باعث حمزہ شہباز کے پاس مطلوبہ نمبرز نہیں ہیں۔درخواست میں بتایا گیا کہ 16 اپریل کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر نے حمزہ شہباز کو بلاجواز وزیر اعلی کے انتخاب میں کامیاب قرار دیا۔

درخواست میں مقف اپنایا گیا ہے کہ حمزہ شہباز کا بطور وزیر اعلی حلف کالعدم قرار دیا جائے اور انہیں عہدے سے ہٹا کر وزیر اعلی پنجاب کے نئے انتخاب کے لیے ہدایات جاری کی جائیں۔لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے رہنما سبطین خان، زینب عمیر، میاں محمد اسلم اقبال، سید عباس علی شاہ اور احسن سلیم بریار کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی۔درخواست میں بتایا گیا تھا کہ حمزہ شہباز کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ بھی شمار کیے گیے تھے جبکہ سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے انتخاب کا نتیجہ ماننے سے انکار کر دیا تھا، حمزہ شہباز نے عدالت سے رجوع کرنے کے بعد حلف اٹھایا تھا۔

درخواست کے مطابق گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیر اعلی کے انتخاب کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان کے سامنے پیش کی جانے والی لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور حقائق نے وزیر اعلی کے انتخاب کی صداقت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ پولیس نے ہمارے ووٹرز کو حق رائے دہی کے استعمال سے زبردستی روکا، قانون کے مطابق اسمبلی سیشن کے دوران ایوان میں کسی غیر متعلقہ شخص کے آنے پر پابندی ہے تو پولیس ایوان میں کیسے داخل ہوئی۔

ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی نے نجی لوگوں کا داخلہ روکا مگر ڈپٹی سیکریٹری نے 300 لوگوں کو بلایا۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ حمزہ شہباز کا انتخاب غیر قانونی ہے، اس سے کالعدم قرار دیا جائے اور حمزہ شہباز کی بطور وزیر اعلی پنجاب کامیابی کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلی کا عہدہ خالی قرار دیا جائے اور حمزہ شہباز کو کام کرنے اور خود کو چیف ایگزیکٹو ظاہر کرنے سے روکا جائے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات