مشرق وسطیٰ کے لیے ایک ’نیٹو‘ قیام کے مرحلے میں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 30 جون 2022 19:40

مشرق وسطیٰ کے لیے ایک ’نیٹو‘ قیام کے مرحلے میں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جون 2022ء) گزشتہ ہفتے کے آخر میں اردن کے بادشاہ کی وہ بات شہ سرخیوں کی زینت بن گئی، جب انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے فوجی اتحاد کی حمایت کریں گے، جو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرز پر قائم کیا جائے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این بی سی کے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے اردن کے شاہ عبداللہ ثانی نے کہا، ''میں ان اولین لوگوں میں سے ایک ہوں گا، جو مڈل ایسٹ نیٹو کی حمایت کریں گے۔

‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم سب جمع ہو رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ہم کیسے ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں؟ ... جو میرے خیال میں اس خطے کے لیے ایک غیر معمولی بات ہے۔‘‘

'عرب نیٹو‘ کے قیام سے متعلق افواہیں دوسری جانب سے بھی سننے کو مل رہی ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹس نے کہا تھا کہ اسرائیل نے امریکی سربراہی میں قائم ہونے والے ایک ایسے اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی ہے، جسے انہوں نے 'مڈل ایسٹ ایئر ڈیفنس الائنس‘ یا MEAD کا نام دیا تھا۔

تاہم گینٹس نے یہ واضح نہیں کیا کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر کون کون سے ملک اس اتحاد میں شامل ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا ادارے، جن میں روئٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس بھی شامل ہیں، اسرائیل کے اس بیان یا اس اتحاد کے نام کی تصدیق نہیں کر سکے۔

پھر رواں ہفتے کے آغاز پر وال اسٹریٹ جرنل نے ایسی خفیہ میٹنگز کے بارے میں رپورٹ کیا، جو مصر میں ہوئیں اور جن میں اسرائیل، سعودی عرب، قطر، اردن، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے فوجی حکام کو شریک ہوتے ہوئے دیکھا گیا اور جنہوں نے دفاع کے معاملے پر تعاون کے بارے میں غور کیا۔

امن کے لیے اتحاد؟

'عرب نیٹو‘ کے قیام کی کئی ایک قابل فہم وجوہات بھی ہیں۔

امریکا جو مشرق وسطیٰ میں امن قائم رکھنے کا ذمہ دار ہے، گزشتہ کئی برسوں کے دوران بتدریج اس خطے سے نکل رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کو یہ بات قاہرہ کے پولیٹیکل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مرکز الاہرام سنٹر کے ماہر احمد السید احمد نے بتائی۔

ان کا کہنا تھا، ''عرب اب اس بات سے کافی آگاہ ہیں کہ ماضی میں زیادہ تر مغربی قوتوں پر انحصار کرنے کی حکمت عملی، خاص طور پر امریکا پر، اب زیادہ کامیاب نہیں رہے گی۔

اب علاقائی مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک مختلف نقطہ نظر موجود ہے تاکہ استحکام حاصل کیا جائے اور معیشت میں بہتری لائی جا سکے، خاص طور پر کووڈ انیس کی عالمی وبا اور یوکرین کی جنگ کے تناظر میں۔ اس رویے کو اس خواہش کے ساتھ تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ خطے میں مسائل ختم کیے جائیں۔‘‘

یہ حقیقت کہ اس اتحاد میں اسرائیل بھی شامل ہو گا، بذات خود اہم ہے۔

عرب ممالک جو ایران یا خطے میں ایرانی حمایت یافتہ قوتوں کی طرف سے فضائی حملوں سے خوفزدہ ہیں، وہ اسرائیل کے جدید فضائی دفاعی نظام کی صلاحیتوں سے مستفید ہونا چاہیں گے۔

احمد السید احمد کہتے ہیں، ''ہدف یہ ہے کہ اسرائیل کو بھی مڈل ایسٹ کے ملٹری اتحاد میں شامل کیا جائے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ اصل میں اسرائیل اور اس کی ہمسایہ عرب ریاستوں کے درمیان 2020ء میں ہونے والے معاہدے کا تسلسل ہی ہے۔

یہی معاہدہ اصل میں اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی وجہ بنا۔

'عرب نیٹو‘ کی ہیئت کیسی ہو گی؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کسی دفاعی اتحاد میں ممکنہ طور پر وہ ریاستیں شامل ہوں گی، جن کے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے تعلقات موجود ہیں۔ ان میں 'ابراہام اکارڈ‘ پر دستخط کرنے والے ممالک شامل ہیں، یعنی متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش۔

اس کے علاوہ اردن اور مصر بھی ہیں، جو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے تھے۔

سعودی عرب، عمان، قطر اور کویت بھی اس اتحاد میں کردار ادا کر سکتے ہیں اور امریکا، جس کا اس طرح کے کسی معاہدے میں اہم ترین کردار ہو گا، وہ بھی یقینی طور پر اس اتحاد کا حصہ ہو گا۔

اس تمام تر صورتحال کے باوجود مبصرین کا خیال ہے کہ اس بات کے امکانات کم ہی ہیں کہ مشرق وسطیٰ حقیقی نیٹو کی طرز کے کسی اتحاد تک مستقبل قریب میں پہنچ سکے۔

واشنگٹن میں قائم 'سنٹر فار اے نیو امیریکن سکیورٹی‘ CNAS میں ڈیفنس پروگرام کی فیلو بیکا واسر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اس وقت ایک وسیع علاقائی تعاون کے لیے زیادہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی میرا خیال ہے کہ 'عرب نیٹو‘ کے اس خیال کو عملی جامہ پہنانا بہت جلد ممکن نہیں ہو سکے گا۔‘‘

الاہرام سنٹر کے احمد السید احمد بھی اسی سوچ سے اتفاق کرتے ہیں، ''عرب نیٹو کا خیال پہلے بھی کئی مرتبہ سامنے آ چکا ہے۔ مگر آج کے دن تک یہ کبھی عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔ کم از کم مستقبل قریب میں تو یہ نہیں ہو گا۔‘‘

کیتھرین شائر، عماد حسن، کیرسٹن کِنپ (ا ب ا / م م)