کیا نیٹو مشرقی یورپ کو بچا سکتا ہے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 1 جولائی 2022 15:40

کیا نیٹو مشرقی یورپ کو بچا سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2022ء) نیٹو کے اسٹریٹجک تصور 2022 میں روس کا 14 اور چین کا 11 مرتبہ ذکر کیا گیا ہے۔ ماسکو اور بیجنگ کے درمیان خطرناک اتحاد پر یہ گہری توجہ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ نیٹو کے سربراہان مملکت اور حکومت آنے والے خطرات سے بخوبی واقف ہیں، جن کے لیے انہیں فوری طور پر تیاری کرنا چاہیے۔

نیٹو کے مشرقی حصے کو کئی طریقوں سے مضبوط کیا جانا لازمی ہے۔

پولینڈ اور رومانیہ کو مشرقی یورپ میں نیٹو کے لازمی ستون کے طور پراپ گریڈ کیا جائے گا۔ امریکہ کی براہ راست کمان میں فوجیوں کو خطے میں منتقل کیا جائے گا تاکہ روس پر قابو پایا جا سکے۔ نیٹو نئے ممالک کے لیے بھی کھلا رہے گا اور اب یہ فوجی اتحاد مغربی بلقان اور بحیرہ اسود کو ''اسٹریٹجک طور پر اہم‘‘قرار دیتا ہے۔

(جاری ہے)

سیاسی استحکام اور وفاداری کے مسائل

نیٹو کا نیا اسٹریٹجک تصور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اتحاد اپنے رکن ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر حملے کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتا۔

یہ دستاویز اس کھائی کی نشاندہی کرتی ہے، جس کے کنارے پر یورپی ممالک کھڑے ہیں، اور یہ صرف یورپی ہی نہیں۔ شام، شمالی کوریا اور روس حالیہ دنوں میں پہلے ہی کیمیائی ہتھیار استعمال کر چکے ہیں۔ چین اور ایران خفیہ طور پر جوہری صلاحیتیں حاصل کر رہے ہیں۔ خطرناک غیر سرکاری عناصر اپنے آپ کو مسلح کرتے رہتے ہیں۔

نیٹو کے نئے اسٹریٹجک تصور میں پیش کی گئی مایوس کن مجموعی تصویر کے علاوہ نیٹو کو لاحق اندرونی خطرات بھی شامل ہیں۔

اس اتحاد نے ابھی تک ان خطرات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ نیٹو کے بعض رکن ممالک کویورپ اور بحر اوقیانوس کی اقدار سے وفاداری کے حوالے سے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ مختلف رکن ممالک میں سیاسی عدم استحکام بھی نیٹو کےاتحاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بلقان کی ریاستیں اب بھی تاریخی علاقائی دشمنیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔

نیٹو شاید رومانیہ اور پولینڈ کو روسی حملے سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے لیکن وہ انہیں اس برائی سے محفوظ نہیں رکھ سکتا جو وہ خود پر ڈال رہے ہیں۔

نیٹو کے یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے ان دونوں رکن ممالک میں عدلیہ واضح طور پر سیاست کے ماتحت رہی ہے۔ اس کے باوجود قانون کی حکمرانی کو برباد کرنے والی اس برائی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کیونکہ رومانیہ اور پولینڈ دونوں یوکرائن اور یوکرائنی پناہ گزینوں کو کلیدی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

مشرق میں پاپولزم اور بھی خطرناک

ہنگری نیٹو کے کے مقابلے میں روس کے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔

ترکی مشرق وسطی اور بلقان میں اثرورسوخ بڑھانےکے لیے اپنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ بلغاریہ ایک غیر مستحکم جھولے پر جھول رہا ہے، وہ ہربار ماسکو سے دور جانےپراپنا توازن کھو دیتا ہے۔

اسی طرح سلوواکیہ اور جمہوریہ چیک کی جانب سے مغرب کی طرف اختیار کی گئی سمت کبھی بھی واپسی کے امکان سے خالی نہیں رہی۔ کروشیا کی طاقت کا ایک مرکز یعنی صدر روس کی حمایت کرتا ہے جبکہ طاقت کا دوسرا مرکز یعنی وزیر اعظم مغرب کو ترجیح دیتا ہے۔

بلغاریہ شمالی مقدونیہ کو کمزور کرنے میں مصروف ہے، ترانا حکومت اب بھی گریٹر البانیا کے خواب دیکھ رہی ہے اور سربیا کے سیاست دان بہرحال روس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ تمام علاقائی دراڑیں روس کے حق میں ہیں۔ ماسکواس صورتحال کو بھڑکا کر وہاں اپنے مفادات حاصل کر سکتا ہے۔

رومانیہ میں مغرب کے حامی وزیر اعظم جنرل نکولی سیو اس حقیقت کے باوجود غیر محفوظ ہیں کہ جب ان پر اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں چربہ سازی کا الزام لگا تو ملکی عدلیہ نے ان کی اس الزام سے سرخرو ہونے میں مدد کی۔

رومانیہ کی ریاست تیزی سے نہ صرف پدرانہ ہوتی جا رہی ہے بلکہ یہ آمریت کی طرف بھی مائل ہو رہی ہے جہاں میڈیا اور عدلیہ، یہاں تک کہ آئینی عدالت بھی سیاست کے زیر اثر ہے۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کا ماڈل تیزی سے دوسرے ممالک میں پھیل رہا ہے۔

پاپولزم کی یورپ میں ہر جگہ ایک مضبوط واپسی ہو رہی ہے۔ لیکن یہ معاملہ مغرب کے مقابلے میں مشرقی یورپ میں بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہاں کے ادارے اب بھی کمزور ہیں اور وہ جوابی لڑائی کے لیے بھی تیار نہیں۔

براعظم یورپ کے اس حصے میں جمہوریت اب تک آمریتوں اورشخصی حکومتوں کے زیر اثر تاریخ میں ایک وقفے سے کچھ زیادہ رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا نیٹوجمہوری آزادیوں کو تیزی سے ختم کرنے اور قانون کی حکمرانی کو دبانے والے ان ممالک پر انحصار کر سکتا ہے؟

سبینہ فاتی(ش ر، ع ب)

یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ رومانئین زبان میں شائع ہوا

LINK: https://www.dw.com/a-62321581