طالبان سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی پہلی مرتبہ کابل آمد، اجلاس میں شرکت

بیرونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے دوران افغان عوام کو نشانہ بنانا کبھی بھی طالبان کا مقصد نہیں رہا،ملا ہیبت اللہ

جمعہ 1 جولائی 2022 23:20

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جولائی2022ء) افغان طالبان کے سربراہ شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ گزشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار ملک کے دارالحکومت کابل میں پہنچے اور ایک اجلاس میں شرکت کی۔افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزاہ جن کی طالبان کی واپسی کے بعد سے عوامی اجتماع میں شرکت کی کوئی تصویر سامنے نہیں آئی تاہم انہوں نے کابل میں مذہبی اسکالرز اور قبائلی عمائدین کے ایک بڑے اجلاس کے دوسرے روز شرکت کی اور خطاب کیا، جہاں اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔

منتظمین کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے 3 ہزار اسکالرز اور بااثر شخصیات اس جرگے میں شامل ہوئے ہیں جو کہ 2 جولائی تک جاری رہے گا۔طالبان کے سربراہ نے پشتو زبان میں اپنی تقریر میں حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک میں مکمل اسلامی نظام نافذ کریں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اسلامی نظام کا قیام نہ صرف افغانستان کے شہریوں کے لیے بلکہ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے اچھی خبر ہے اور ہمیں پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔

ملا ہیبت اللہ نے کہا کہ ملک پر قابض بیرونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے دوران افغان عوام کو نشانہ بنانا کبھی بھی طالبان کا مقصد نہیں رہا مگر وہ افغان شہری جو غیر ملکی قابض قوتوں کو معاونت فراہم کرتے رہے ان کے لیے ہمارے پاس سوائے لڑنے کے کوئی اور راستہ نہیں تھا۔طالبان کے سربراہ نے کہا کہ جب امریکی افغانستان سے نکلے تو ہم نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور انہیں اطلاع دی کہ طالبان کے خلاف ان کی بربریت کے باوجود انہیں معاف کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے عہدیداروں پر زور دیا کہ وہ تمام سرکاری محکموں میں بدعنوانی کا خاتمہ کریں اور جانب داری اور دوستی کی بنیاد پر عہدے دینے سے گریز کریں۔ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا کہ اگر اس طرح کی برائیاں ہماری حکومت کا حصہ ہیں تو یہ اس جدوجہد کے بلکل برعکس ہو گی جو ہم نے اسلامی نظام کے قیام کے لیے کی تھی۔انہوں نے امارت اسلامیہ کی پالیسیوں کا مزید دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عالمی برادری کی جانب سے چیلنجز کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم اسلامی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد شروع کریں گے تو ہماری حکومت کی مخالفت مزید بڑھے گی۔قبل ازیں، اجتماع میں مقررین نے بیرونی اور اندرونی چیلنجز کے باوجود اپنے ملک کا دفاع کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔افغانستان میڈیانے افغان وزیر اعظم ملا حسن کے حوالے سے جاری بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نے خطاب میں شرکا پر زور دیا کہ وہ ان لوگوں سے سوال کریں جو اسلامی نظام کے خلاف ہیں اور کہا کہ اب اسلامی نظام قائم ہو چکا ہے، ہمیں اس سے مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

انہوں نے شرکا سے کہا کہ آپ لوگ اچھی طرح واقف ہیں کہ اسلامی نظام کے تحت طالبان سے لڑنے والے تمام لوگوں کو معاف کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ بیرون ملک بیٹھ کر ہمارے ملک کے خلاف مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔دریں اثنا افغانستان کے وزیر دفاع ملا یعقوب نے کچھ مسائل کے حل کے لیے شرکا سے مذہبی فرمان طلب کیا۔انہوں نے علمائے کرام سے کہا کہ وہ اسلامی شریعت کے نفاذ میں خرابیوں کی نشاندہی کریں اور ان پر ان مسائل کا حل تجویز کرنے پر زور دیا۔ملا یعقوب نے کہا کہ نہ تو کسی اسلامی اور نہ ہی کسی غیر اسلامی ملک نے ہمارے نظام کو تسلیم کیا ہے اس لیے ہمیں مشورہ دیں کہ ایسی خارجہ پالیسی کیسے بنائی جائے جس سے ہماری حکومت کو تسلیم کیا جائے۔