Live Updates

ملک میں آئندہ درآمدی ایندھن پر کوئی بجلی گھر نہیں لگایا جائے گا ، نئی گیس سکیموں کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی، ، شمسی توانائی کی جامع پالیسی کا اعلان جلد کیا جائے گا، وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزراء کی پریس بریفنگ

پیر 4 جولائی 2022 22:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 جولائی2022ء) وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں آئندہ درآمدی ایندھن پر کوئی بجلی گھر نہیں لگایا جائے گا جبکہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو ہدایت کی ہے کہ ملک میں تین گھنٹے سے زائد لوڈ شیڈنگ نہیں ہونی چاہئے، وزارت بجلی واجبات کی وصولی اور بجلی چوری کی روک تھام کے حوالہ سے ڈسکوز کا تفصیلی موازنہ دو ہفتے میں پیش کرے جس کو سامنے رکھ کر صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے اقدامات اٹھائے جائیں گے، نئی گیس سکیموں کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی، شمسی توانائی کی جامع پالیسی کا چار ہفتوں میں اعلان کر دیا جائے گا، تربیلا پاور سٹیشن اور کے۔

ٹو پاور پلانٹ سے بجلی کی پیداوار بڑھنے سے عید کے دنوں میں لوڈ شیڈنگ میں ریلیف ملے گا، مختلف منصوبوں سے آئندہ موسم گرما تک 7 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو جائے گی، ایک سال میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے واجبات کی وصولی اور آپریشن بہتر ہو جائے گا، میٹر ریڈنگ کی شکایات کے خاتمہ کیلئے رواں سال کے آخر یا آئندہ سال کے اوائل سے صرف سمارٹ میٹرز ہی لگائے جائیں گے۔

(جاری ہے)

پیر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر بجلی خرم دستگیر خان نے کہا کہ وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ سی پیک کے 720 میگاواٹ کے کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے پیداوار شروع ہو گئی ہے، اپریل 2015ء میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں اس منصوبے کے معاہدے پر دستخط کئے گئے تھے اور 29 جون سے یہ مکمل طور پر فعال ہو گیا ہے، 969 میگاواٹ کے نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ سے بھی گھریلو اور صنعتی صارفین کو بجلی مل رہی ہے، وزیراعظم نے 29 جون کو کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا افتتاح کرنا تھا لیکن الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے احترام میں انہوں نے منصوبے کا افتتاح نہیں کیا کیونکہ موجودہ وسیع البنیاد جمہوری حکومت آئین اور قانون کی پابندی پر یقین رکھتی ہے جبکہ عمران خان قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کو بتایا گیا ہے کہ 2013ء سے 2018ء تک مسلم لیگ (ن) کے دور میں جو منصوبے شروع کئے گئے تھے ان سے 4623 میگاواٹ بجلی آئندہ موسم گرما سے پہلے سسٹم میں شامل ہو جائے گی جبکہ سولر، نیٹ میٹرنگ اور دیگر منصوبوں سے مجموعی طور پر اگلے موسم گرما تک 7 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو گی جس سے لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی کی جامع پالیسی لائی جا رہی ہے، اس سلسلہ میں سرکاری و نجی عمارات کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں جبکہ چھوٹے صارفین کو آسان قرضوں پر سولر پینل فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جمعرات کو وزیراعظم کو اس سلسلہ میں بریفنگ دی جائے گی اور چار ہفتوں میں پالیسی کا اعلان کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ چار دنوں سے تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد میں بہتری آئی ہے، عید سے پہلے تربیلا پاور سٹیشن اپنی مکمل 3500 میگاواٹ کی پیداوار شروع کر دے گا جس سے لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی ہو گی، کے۔ٹو پاور پلانٹ سے بھی 1100 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی جا رہی ہے جس سے عید کے دنوں میں لوڈ شیڈنگ میں بڑا ریلیف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور تمام اتحادی رہنما ء سنجیدگی سے ملک کی بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں اور تمام قائدین معیشت کی بہتری، جمہوریت کے استحکام اور آئین کی عملداری کیلئے مل کر کام کر چل رہے ہیں، آئندہ انتخابات 2023ء میں موجودہ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے کے بعد ہوں گے اور انتخابات صاف شفاف ہوں گے جس سے ایک خوشحال، مضبوط اور جمہوری پاکستان کی بنیاد پڑے گی۔

خرم دستگیر خان نے کہا کہ غریب ترین صارفین جو 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں انہیں ریلیف دیا جا رہا ہے اور 100 سے 200 یونٹس تک کے بجلی صارفین کیلئے بجلی مہنگی نہیں کی جائے گی، پہلی کیٹگری کیلئے بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جاتا، دوسری کیٹگری کے صارفین کو بھی زیادہ سے زیادہ سبسڈی دی جائے گی، حکومت پنجاب نے بھی 100 یونٹ تک کے صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین کو بجلی کے یونٹس کی فراہمی 1960ء کی دہائی سے چلی آ رہی ہے، اس سلسلہ میں اصلاحات کا ایک پیکیج تیار کیا جا رہا ہے کہ انہیں تنخواہ میں بجلی کی مفت فراہمی کی بجائے سہولت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی کارکردگی کا موازنہ پیش کیا جائے، بجلی چوری کی روک تھام اور واجبات کی وصولی بڑھانے کیلئے ڈسکوز کی مینجمنٹ کو بہتر بنایا جائے گا اور اس کیلئے نگرانی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا جس سے واجبات کی وصولی اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے آپریشن میں 12 ماہ میں نمایاں بہتری آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت کے تعین کے حوالہ سے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جا رہا ہے، قیمت میں اضافہ ہو گا لیکن ہماری پوری کوشش ہے کہ عوام پر بوجھ میں زیادہ سے زیادہ کمی لائی جا سکے، بجلی کی قیمت کی ری بیسنگ کا کام انتہائی ضروری ہے، آخری ری بیسنگ فروری 2021ء میں ہوئی تھی اس کے بعد ری بیسنگ نہیں کی گئی اور اب عالمی سطح پر توانائی کی قیمتیں بھی بہت بڑھ چکی ہیں، اس لئے یہ کام انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ تریموں میں آر ایل این جی پاور پلانٹ نیب گردی کا شکار ہوا اور سیاسی انتقال لیتے لیتے سابق حکومت نے عوام سے بھی انتقام لیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئیسکو، فیسکو، گیپکو، لیسکو اور میپکو پانچ ایسی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں جن کا خسارہ نسبتاً کم ہے اور بعض میں یہ خسارہ 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رواں سال کے آخر یا 2023ء کے شروع میں لگنے والا ہر نیا میٹر سمارٹ میٹر ہو گا، اس سے بجلی کی ریڈنگ کے حوالہ سے شکایات دور ہو جائیں گی۔

وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ جب عالمی مارکیٹ گیس کی قیمت 4 ڈالر تھی تو اس وقت گیس نہیں خریدی گئی، آج قیمت 40 ڈالر تک پہنچ چکی ہے، مہنگی گیس بھی آج نہیں مل رہی، ٹرمینلز موجود ہیں، گیس کو ری گیسی فائی کرنے کا معاہدہ بھی موجود ہے لیکن سابق حکومت نے گیس نہیں خریدی، گذشتہ سالوں میں 170 ارب روپے کی ایل این جی خرید کر گھریلو صارفین کو دے دی گئی، 4 ہزار کی ایل این جی خرید کر 400 سے 500 روپے میں کسی ملک میں فروخت نہیں کی جاتی۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایل این جی کے حصول کیلئے مختلف ممالک سے رابطے کر رہے ہیں، ایس این جی پی ایل کو 1170 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی ضرورت ہے لیکن صرف 670 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دستیاب ہے، سابق حکومت نے صرف پکڑ دھکڑ اور انتقام کی پالیسی اختیار کئے رکھی، موجودہ حکومت ملک کی بہتری کیلئے سخت فیصلے کر رہی ہے، ہم سیاسی قیمت ادا کریں گے لیکن ملک کو سنواریں گے۔

مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا کہ کابینہ میں سارے ملک میں لوگوں کی شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ سے ہونے والی تکلیف پر تبادلہ خیال کیا گیا، ہمیں احساس ہے کہ شدید ترین گرمی میں انتہا کی لوڈ شیڈنگ ہے، یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے تاہم اب برسات کے موسم کی وجہ سے اس میں بہتری آئی ہے، حکومت جانتی ہے کہ وہ جو مشکل فیصلے کر رہی ہے اس کے سیاسی اثرات ضرور آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں ہمارے ہاتھ میں تھیں اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ، روس اور یوکرین کی جنگ میں طوالت جس کے نتیجہ میں عالمی منڈی میں گیس کی شدید قلت اور قیمتوں میں اضافہ کے حوالہ سے دنیا میں کہیں پیشنگوئی نہیں تھی، ان حالات کی وجہ سے بھی اور کچھ گذشتہ حکومت کی جانب سے بروقت اور درست فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ سارے مسائل انہی کی وجہ سے ہیں، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں لیکن انہوں نے اپنی نالائقی اور نااہلی سے جو تباہی پھیری ہے اس کی بدولت مسائل پیدا ہوئے، بجلی کے کارخانے فوری طور پر نہیں لگ سکتے، زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ وہ کارخانے جو انتہائی پرانے ہیں اور ان سے بہت مہنگی بجلی پیدا ہوتی ہے اور پاکستان میں 1500 میگاواٹ کے ایسے کارخانے ہیں جن سے بجلی پیدا کرنے پر 60 روپے فی یونٹ لاگت آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو تو اس سے بھی مہنگی بجلی پیدا ہو گی، ہمیں وہ بھی کارخانے چلانے پڑے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قوم کو ایک جھوٹ کا خواب دکھایا گیا کہ ہمارے پاس انسٹال کیپسٹی 40 ہزار میگاواٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو اعداد و شمار دے رہے ہیں یہ میڈیا اور ہمارے مخالفین کے پاس بھی موجود ہیں، کوئی ان اعداد و شمار کو چیلنج کرنا چاہتا ہے تو چیلنج کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آج کے دن 60 روپے فی یونٹ والی 1500 میگاواٹ شامل کرکے 25 ہزار میگاواٹ بجلی دستیاب ہے جبکہ حقیقت میں اس وقت ہمارے پاس 24 ہزار میگاواٹ بجلی ہے جبکہ طلب 30 ہزار کے قریب ہے جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بجلی مفت میں نہیں ملتی، جن علاقوں میں زیادہ لائن لاسز یا بجلی چوری ہے وہاں پر زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، جہاں بجلی چوری اور لائن لاسز کم ہیں اور وصولیاں زیادہ ہیں وہاں لوڈ شیڈنگ کم ہوتی ہے، یہ مشکل بات ہے اور جب یہ بات کہی جاتی ہے تو ہم محکمے کو موردالزام ٹھہراتے ہیں لیکن یہ ہمارے سماج کا بھی المیہ ہے کہ کچھ علاقوں سے لوڈ شیڈنگ کے حوالہ سے خبر آتی ہے کہ وہاں 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے، ایسے علاقوں میں لائن لاسز 80 فیصد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور جن فیڈرز کے یہ لاسز ہوں ان کو چلانا مشکل کام ہے، اس کی قیمت جہاں لائن لاسز نہیں ہیں وہ ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سال 1072 ارب روپے سبسڈی لائن لاسز یا ریلیف کے دیگر مدات میں دی گئی، اس کے باوجود 283 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ پڑا ہے، یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ قوم کو اس سے آگاہ کیا جائے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ حکومت نے مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگانے کی طرف توجہ نہیں دی، پی ٹی آئی حکومت نے مسلم لیگ (ن) اور ہماری حکومت کے خلاف تو بہت پروپیگنڈا کیا لیکن اپنے دور میں کارخانے نہ لگا کر مجرمانہ غفلت کی، آج نیوکلیئر پاور، پن بجلی، ونڈ سمیت تمام کارخانے چلا دیئے جائیں اور پھر بھی ہم طلب پوری نہ کر سکیں تو اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی، دو ماہ میں تو یہ صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ کچھ منصوبے ان کی غفلت کی وجہ سے بروقت مکمل نہ ہو سکے، اگر وہ مکمل ہو جاتے تو آج صورتحال اتنی گھمبیر نہ ہوتی، لوڈ شیڈنگ سے شاید ہم مستثنیٰ پھر بھی نہ ہوتے تاہم ایک آدھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی، پنجاب تھرکول منصوبے میں 26 ماہ تاخیر کی گئی، یہ اب رواں ماہ مکمل کئے جانے کی توقع ہے، 1263 میگاواٹ کا یہ منصوبہ اگر ایک سال پہلے بھی مکمل ہوتا تو بدترین لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی، اسی طرح انووا انرجی کا ملکی کوئلہ سے پیدا ہونے والی بجلی کا منصوبہ تھا اس میں بھی تاخیر ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ آئندہ باہر کے فیول سے چلنے والا کوئی نیا منصوبہ نہیں لگائیں گے، اب صرف اندرون ملک فیول کے حامل منصوبے لگائے جائیں گے، نووا انرجی کے 330 میگاواٹ کے منصوبے کی تکمیل میں 17 ماہ تاخیر ہوئی، یہ اب دسمبر 2022ء میں مکمل ہو گا، شنگھائی الیکٹرک کا منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہوا، کروٹ کے منصوبہ پر وزیراعظم شہباز شریف نے کام کی رفتار کو تیز کیا، وزیراعظم خود اس منصوبہ کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، اس منصوبہ کی تکمیل میں تیزی سے چار ارب روپے کی بچت ہوئی، یہ وہ منصوبے ہیں جو 2021ء سے قبل مکمل ہونے تھے، یہ تقریباً 3963 میگاواٹ کے منصوبے تھے، اگر ہم اس کا ذمہ دار گذشتہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں تو وہ اس پر شور مچاتے ہیں کہ انہیں اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے، جتنی تاخیر اس حکومت نے کی اتنی مدت میں مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور حکومت میں بجلی کے نئے منصوبے لگائے، پنجاب میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے 26 ماہ میں منصوبے مکمل کئے جتنی اس حکومت نے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کی، یہ کارکردگی ہے جس کا ہم بار بار ذکر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے ساری باتیں سن کر ٹاسک فورس اور کمیٹیاں بنا کر کہا کہ ایک ہفتہ میں لوڈ شیڈنگ کے حوالہ سے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ برسات کی وجہ سے دریائوں میں پانی کا بہائو بہتر ہوا ہے جس سے 2 ہزار میگاواٹ پن بجلی اضافی اس ہفتہ کے آخر تک دستیاب ہو گی، اس سے لوڈ شیڈنگ کم ہو گی، کابینہ کے اجلاس میں وزارت بجلی کی جانب سے بتایا گیا کہ کچھ علاقوں میں چار گھنٹے، کچھ میں چھ اور کچھ میں آٹھ سے دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہے، وزیراعظم نے حکم دیا کہ تین گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہونی چاہئے، اس سے زیادہ لوڈ شیڈنگ برداشت نہیں کی جائے گی، یہ وزارت کا امتحان ہے، اﷲ سے دعا ہے کہ برسات اتنی ہو کہ اس سے سیلاب نہ آئیں اور ہمارے دریا بھرے رہیں تاکہ لوگوں کی زندگیوں میں آسانی لا سکیں، پاکستان کے عوام سے صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ یہ جو سارے فیصلے ہم کر رہے ہیں ہم علم ہے کہ یہ خوشی کے فیصلے نہیں ہیں، ان فیصلوں سے آپ نے ناراض بھی ہونا ہے، گذشتہ حکومت یہ فیصلے اس لئے نہیں کر سکی کہ اسے لوگوں کی ناراضگی اور سیاسی نقصان گواراہ نہیں تھا، ہم نے یہ سوچ کر فیصلے کئے کہ اپنا سیاسی نقصان اور پاکستان کے نقصان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا ہم نے اپنا سیاسی نقصان کرکے پاکستان کے مفاد میں فیصلے کئے کیونکہ جو نقصان ہو رہا تھا اگر یہ اسی طرح ہوتا رہتا تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہوتا، ہم نے عوام کے سامنے ساری صورتحال رکھی ہے، ہم نے مشکل فیصلے کرکے اپنے آپ کو رسک میں ڈال لیا ہے، ہمیں توقع کہ آئندہ صورتحال بہتر رہے گی۔

وفاقی وزیر سرمایہ کاری بورڈ چوہدری سالک حسین نے کہا کہ مشکل فیصلوں کے حوالہ سے کابینہ میں بھی بات ہوتی رہی، اکثر ممبران یہ کہتے رہے کہ آج سے 10 سال پہلے بھی یہی باتیں ہوتی رہی ہیں، اگر یہ فیصلے ہم آج نہ کرتے تو آئندہ 10 سال بعد بھی یہی باتیں ہماری جگہ کوئی اور بیٹھ آپ کو سنا رہا ہوتا، اس لئے یہ فیصلے کرنے اہم تھے تاکہ توانائی کی ضروریات کے حوالہ سے ہمیشہ کیلئے ہم صحیح سمت میں چلے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ایسے لوگ ملے جنہوں نے گذشتہ تین چار سالوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی، انہوں نے جگہ بھی حاصل کر رکھی ہے، کوئلہ سے بجلی سستی پیدا ہوتی ہے، سولر کی ایک بڑی کمپنی ملی، وہ چار سال یہاں نیپرا اور دیگر کے پاس ٹیرف کیلئے گھومتی پھرتی رہی، ان سے جب بہت زیادہ سوال کئے تو انہوں نے بتایا کہ کچھ ذاتی مفادات کے حامل امور کی وجہ سے اس میں تاخیر کی گئی اور اس کا خمیازہ آج ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن وزیراعظم جس عزم کے ساتھ کابینہ کے اجلاس میں احکامات دیتے ہیں میں پرامید ہوں کہ فیصلے سخت ضرور ہیں لیکن آنے والے وقت میں فائدہ مند ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں قمر زمان کائرہ نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ کچھ علاقوں میں لائن لاسز بہت زیادہ ہیں، جن علاقوں سے ریکوری بہتر ہوتی ہے ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کی صورتحال بہتر ہونی چاہئے اور بہتر ہے۔ وزیراعظم نے آج اجلاس میں وزارت بجلی کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ سب سے اچھی وصولیوں والی اور سب سے ناقص وصولیوں والی ڈسکوز کا موازنہ کرکے دو ہفتوں کے اندر کابینہ کے سامنے رکھیں، پھر وہاں پر کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائیں اور صوبائی حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ساتھ ملا کر ڈسکوز کے بورڈ کی تشکیل کریں کہ صرف باتیں نہیں بلکہ عملی کام ہو، کالی بھیڑیں ہر محکموں میں ہوتی ہیں جنہوں نے چوری پکڑنی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں قمر زمان کائرہ نے کہا کہ کشمیر کو بجلی کی جتنی ضرورت ہے اس کا کوٹہ مقرر ہے، وہ ہمیں ملتی ہے، وہاں پر ان کا ڈسٹری بیوشن کا نظام اپنا ہے، وہ بلک میں ہم سے بجلی خریدتے ہیں اور اپنے نیٹ ورک کے تحت فروخت کرتے ہیں، جس طرح پانی کوٹہ کے مطابق دیا جاتا ہے اسی طرح بجلی بھی کوٹہ کے مطابق دی جاتی ہے۔\932
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات