پاکستان کی عسکری تاریخ کا پہلا نشانِ حیدر حاصل کرنے والے بہادر سپوت کیپٹن محمد سرور شہید (نشانِ حیدر)کی داستان

منگل 26 جولائی 2022 15:11

پاکستان کی عسکری تاریخ کا پہلا نشانِ حیدر حاصل کرنے والے بہادر سپوت ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 جولائی2022ء) لہو سے سرزمین وطن کی آبیاری کرتے ہوئے، ازلی دشمن بھارت کی فوج پراپنی شجاعت و بہادری کی دھاک بٹھاکر شہید ہو نے والے اور پاکستان کا پہلا اور سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر پانے والے پاک فوج کے جانباز ہیرو کیپٹن محمد سرور شہید ہیں ۔کشمیر کی وادیاں آج بھی گواہ ہیں کہ کس طرح کیپٹن محمد سرور اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑے تھے۔

اس نے دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اسے بتایا کہ اس زمین کے لیے وہ خون بہا بھی سکتا ہے اور دشمن کو گرا بھی سکتا ہے۔ کیپٹن سرور نے جان کا نذرانہ دے کروطن کے دفاع کو یقینی بنایا۔ کیپٹن محمد سرور راولپنڈی کے گاؤں سنگھوری میں 10 نومبر 1910 کو پیدا ہوئے۔کیپٹن محمد سرور کا تعلق ایک فوجی گھرانے سے تھا۔

(جاری ہے)

آپ کے والد جناب محمد حیات خان بھی فوج میں تھے۔

کیپٹن محمد سرور شہید نے اپنی ابتدائی تعلیم فیصل آباد کے گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول طارق آبادسے حاصل کی اور پھر 1925 ء میں تاندلیہ نوالہ مڈل سکول سے مڈل پاس کیااور 1927 ء میں دسویں جماعت میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس وقت آپ کی عمر 17 برس تھی۔ 1944ء میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، جس کے بعد دوسری عالمی جنگِ عظیم میں حصہ لیااور شاندار فوجی خدمات کے پیشِ نظر 1946ء میں انہیں مستقل طور پر کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔

1948 میں آپ پنجاب رجمنٹ کے سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے جب انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔قیام پاکستان کے وقت چونکہ پنجاب رجمنٹ ایک منظم اور فعال رجمنٹ تھی اس لئے اس کو کشمیر جانے کا حکم ملا۔اسی رجمنٹ میں محمد سرور بھی اپنا کورس مکمل کر رہے تھے مگر ابھی ان کی تربیت مکمل نہ ہوئی تھی؛چنانچہ وہ کسی طرح بھی محاذجنگ پر نہیں جا سکتے تھے۔

اپنے تجربہ اور قابلیت کی وجہ سے وہ یہ خیال کرتے تھے کہ انہیں ضرور جنگ پر جانا چاہیے۔ابھی محاذ جنگ پر فوج گئی نہ تھی کہ ان کا کورس بھی مکمل ہو گیا۔انہوں نے فوراً ہی کوشش شروع کر دی کہ ان کو محاذ پر جانے والی یونٹ میں شامل کیا جائے۔کیپٹن محمد سرور نے اس مرتبہ اپنے بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملاقات میں کمانڈنگ آفیسر سے انہوں نے د رخواست کی کہ وہ محاذ جنگ پر جانا چاہتے ہیں۔

کمانڈنگ آفیسرکو معلوم تھا کہ یہ محاذآسان نہیں ہے۔لیکن کمانڈنگ آفیسر نے ان سے وعدہ کر لیا اور کچھ دن بعد راجہ محمد سرور کو یونٹ میں شامل کر لیا۔چند روز کے بعد کمانڈنگ آفیسر لفٹینٹ کرنل مسعود احمد نے اپنے ماتحت جوانوں اور افسروں کو جمع کیا اور ان کو اس سلسلے میں مشورے کیلئے کہا۔کمانڈر نے تمام صورت حال ان کے سامنے رکھ دی کہ کوئی ایسا جانباز چاہیے جو مختصر سی جماعت کے ساتھ دشمن کی اس چوکی کو تباہ و برباد کر دے جو فتح کے راستے میں حائل تھی۔

کیپٹن محمد سرور نے جواب دیایہ کام وہ بڑے شوق اور جذبے کے ساتھ کریں گے۔کیپٹن محمد سرور نے تمام باتوں کو غور سے سنا اور کمانڈر کی ہدایات پر عمل کرنے کا وعدہ کر لیا۔27 جولائی 1948 کو انہوں نے کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں کئی جوان شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن سرور نے پیش قدمی جاری رکھی۔دشمن کے مورچے کے قریب پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے، اس کے باوجود کیپٹن سرور مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔

اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر 6 ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے خاردار تاروں کو عبور کر کے دشمن کے مورچے پرآخری حملہ کیا۔دشمن پر برسٹ کے ساتھ“اللہ اکبر“ کے الفاظ ادا کرتے ہوئے رب کے حضور لبیک کہہ دیا۔دشمن اس چوکی کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کیپٹن سرور کی جانب کر دیا، یوں ایک گولی کیپٹن سرور کے سینے میں لگی اور آپ نے شہادت پائی۔

صبح کے سورج نے اس پہاڑی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا۔بہادری کی بے مثال تاریخ رقم کرنے پر انہیں نشانِ حیدر سے نوازا گیا، یہ اعزاز ان کی بیوہ نے 3 جنوری 1961 کو صدرپاکستان محمد ایوب خان کے ہاتھوں وصول کیا تھا۔کیپٹن محمد سرور شہید نے مادر وطن کے دفاع کے کمال بہادری، جرات کا مظاہرہ کیا۔ان کی شہادت کے بعد جنرل ایوب خان نے اپنے خطاب میں کہا:”میں کیپٹن محمدسرور شہید کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں جنہوں نے سب سے پہلے نشانِ حیدر حاصل کر کے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے عظیم قربانی دے کر اپنا،اپنی فوج کا اور اپنی یونٹ کا نام ہمیشہ کیلئے زندہ کر دیا ہے۔بے شک ان کی قربانی پر ہم سب کو فخر ہے۔آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ اس سنہری کارنامے کی یاد ہمیشہ تازہ رکھیں گے“۔ جنرل ٹکا خان تحریر کرتے ہیں:”پوری قوم سرور شہید کے شاندار کارنامے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔افواج پاکستان کی تاریخ میں ان کا یہ کارنامہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا“۔

ان کے دیرینہ ساتھی میجر افضل کہتے ہیں:”میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ جیسے سرور شہید ابھی میرے قریب سے گزرے ہیں اور مجھے نصیحت کر کے گئے ہیں کہ میں دشمن کی ناکامی اور ان کی شہادت کی دعا مانگوں مجھے وہ وقت یاد ہے۔ان کی زندگی مثالی تھی میں نیند کا شوقین تھا وہ صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھنے لگتے اور مجھے زبردستی اٹھاتے۔میں انہیں مولوی کہتا اور وہ مجھے روکتے اور شہید کہہ کر پکارنے کو کہتے۔

“ صوبیدار منگت خان کا کہنا ہے:”کیپٹن محمدسرور شہید فضول بات چیت نہ کرتے۔وہ بہت کم گو تھے اور صرف کام کی بات کرتے تھے،ہمیشہ باوضو رہتے اور وقت کی قدر کرتے تھے۔“مادر وطن کی خاطر بیرونی دشمنوں کے خلاف جنگ لڑنے والے کیپٹن سرور شہید آج دہشت گردوں اور اندرونی چیلنجز سے نبرد آزما پاک فوج کے جری سپوتوں کے لئے بہادری کی روشن مثال ہیں۔ آج پوری قوم 1948ء کی کشمیر جنگ میں بہادری، شجاعت کی داستاں رقم کرنے والے شہید کیپٹن محمد سرور کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔