مقبوضہ جموں وکشمیرکی صورتحال بد سے بدتر ہو گئی، مودی حکومت کے دعوے جھوٹے ہیں،ریٹائرڈ ججز، بیوروکریٹس

پیر 8 اگست 2022 16:23

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 اگست2022ء) بھارت میں سابق بیوروکریٹوں اور ججوں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پربھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میںگورنر راج کے دوران عام شہریوں کی حالت بد سے بد ترہوگئی ہے جہاں انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کونشانہ بنانے کے لئے بغاوت، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اورپبلک سیفٹی ایکٹ جیسے انسداد دہشت گردی کے کالے قوانین کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس اے پی شاہ کی سربراہی میں تیارکی گئی۔ اس رپورٹ میں ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی کمیشن کی طرف سے تجویز کردہ حد بندی اور فلم'' دی کشمیر فائلز'' کو دی گئی اہمیت پر بھی تنقید کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ تین سال کے گورنر راج کے بعد شہری سلامتی بد سے بدتر ہوگئی ہے۔ کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لئے بغاوت اور انسداد دہشت گردی کے کالے قوانین کا غلط استعمال کیا جاراہا ہے۔

’’مرکز کے زیر انتظام علاقے کے طور پر تین سال: جموں و کشمیر میں انسانی حقوق''کے عنوان سے سالانہ رپورٹ جموں و کشمیر انسانی حقوق فورم نے جاری کی جو ایک آزاد ادارہ ہے اور جس کی مشترکہ صدارت دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ اور سابق بھارتی داخلہ سیکریٹری گوپال پلے کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس روما پال اور مدن لوکور، سابق خارجہ سکریٹری نروپما رائو، اورریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ فورم کے ارکان میں شامل ہیں ۔

رپورٹ اگست 2021سے جولائی 2022تک کی مدت پر مشتمل ہے۔رپورٹ میں کہاگیا کہ جسٹس ڈیسائی کمیشن کی طرف سے تجویز کردہ حد بندی سے'' ایک شخص ایک ووٹ'' کے اصول کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ رپورٹ میں نئی دہلی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرے۔الیکشن کمیشن کو اسمبلی انتخابات کے لئے تاریخوں کا اعلان کرنا چاہئے اور انہیں پہلے سے طے شدہ حلقوں کے تحت منعقد کرنا چاہئے۔یہ رپورٹ وادی کی صورتحال کے بارے میں مودی حکومت کے موقف کے بالکل برعکس ہے۔