پاک ترکی ترجیحی تجارتی معاہدہ، حکومت نجی شعبے کو اعتماد میں لینے میں ناکام

وزارت تجارت نے پی ٹی اے پر مشاورت کے لیے نجی شعبے کو اعتماد میں نہیں لیا، اسماعیل ستار مشاورت بغیر تجارتی معاہدے معیشت، صنعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوںگے،صدر ایمپلائرز فیڈریشن پاکستان

پیر 8 اگست 2022 19:28

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اگست2022ء) ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) کے صدر اسماعیل ستار نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے مابین ترجیحی تجارتی معاہدہ( پی ٹی ای) نجی شعبے سے مشاورت کے بغیرملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔اس سے پہلے بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ جب پاک چین تجارتی معاہدہ طے پایا تھا پاکستان اس معاہدے کی حقیقی صلاحیت کا ادراک نہیں کر سکا جبکہ چین پاکستان کو کافی زیادہ مقدار میں مصنوعات برآمد کرنے میں کامیاب رہا جس سے ہماری ادائیگیوں کے توازن (بی او پی) کی پوزیشن خراب ہو گئی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے ترکی کے ساتھ 12 اگست 2022 کو ترجیحی تجارتی معاہدے ( پی ٹی ای) پر دستخط کیے جانے کی توقع ہے۔ معاہدے کے تحت پاکستان نے ترکی کو تقریباً 220 مصنوعات پر ڈیوٹی چھوٹ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے جبکہ ترکی نے پاکستان کو تقریباً 120 مصنوعات پر چھوٹ دی ہے تاہم وزارت تجارت نے پی ٹی اے پر مشاورت کے لیے نجی شعبے کو اعتماد میں نہیں لیا۔

(جاری ہے)

اسماعیل ستار نے یک بیان میں کہا کہ وزارت تجارت نے نجی شعبے سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان میں نجی شعبے کی نمائندگی کرنے والے اعلیٰ اداروں ای ایف پی اور ایف پی سی سی آئی سے کوئی مشاورت کی۔ پاکستان ایک معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے نجی شعبے کی مشاورت کے بغیر پی ٹی اے کے تحت بڑھتی ہوئی درآمدات کے نتیجے میں معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان شعبوں میں بین الاقوامی سطح پر مسابقتی رہے جن میں مذکورہ ملکوں کو مسابقتی برتری حاصل ہے۔اگر معاہدہ جس میں پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے کوئی ان پٹ نہیں اور اس میں حقیقی مصنوعات شامل نہیں کی گئیں تو یہ پاکستان کی معیشت کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔صدر ای ایف پی نے مزیدکہا کہ پاک ترکی پی ٹی اے کے نتیجے میں متعدد پاکستان میں قائم کمپنیاں متاثر ہوں گی کیونکہ ان کی مصنوعات ترکی کی مصنوعات کے مقابلے میں غیر مسابقتی ہو سکتی ہیں جو ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوں گی۔

اس وقت پاکستان کو ملک کی بی او پی پوزیشن کو بڑھانے کے لیے سازگار تجارتی معاہدوں کی ضرورت ہے لہٰذا وزارت تجارت کے لیے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ معاہدے پر نجی شعبے کی رائے کو مدنظر رکھا جائے اور باہمی مشاورت سے مصنوعات کو پی ٹی اے میں شامل کیا جائے۔حکومت پاکستان نجی شعبے کی شمولیت کے بغیر صنعت اور بی او پی کی پوزیشن کو سنگین خطرے میں ڈال رہی ہے۔

ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان نے حکومت سے درخواست کی کہ کسی بھی تجارتی معاہدے سے قبل نجی شعبے سے ضرور مشاورت کی جائے بصورت دیگر یہ معاہدہ پاکستان کی صنعتوں اور معاشی نقطہ نظر کے لحاظ سے غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کا باعث گا ۔ملک اب ایسے تجارتی معاہدوں کا متحمل نہیں ہو سکتا جو پاکستان کی صنعتوں کے لیے ناگوار ہوں اور اس کے نتیجے میں ملک کے درآمدی بل میں تیزی سے اضافہ ہو۔