Live Updates

شہباز گل کی گرفتاری: ممکنہ سیاسی نتائج کیا کیا، بحث جاری

DW ڈی ڈبلیو بدھ 10 اگست 2022 21:00

شہباز گل کی گرفتاری: ممکنہ سیاسی نتائج کیا کیا، بحث جاری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2022ء) دوسری طرف کچھ حلقے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ اگر فوج مخالف بیانات پر کارروائی کا سلسلہ شروع ہوا، تو اس میں کئی دیگر سیاسی جماعتیں بھی لپیٹ میں آ سکتی ہیں۔ کئی شہریوں نے سوشل میڈیا پر پہلے ہی نواز شریف، مریم نواز اور دیگر سیاست دانوں کے فوج مخالف بیانات اور تقاریر اپ لوڈ کرنا شروع کر دی ہیں۔

مزید گرفتاریاں اور مقدمات

شہباز گل کو آج بدھ دس اگست کے روز اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے پولیس کو ان کا دو روزہ ڈیمانڈ دے دیا۔ پولیس نے اس مقدمے کے حوالے سے گرفتاریوں اور کیس درج کرنے کا دائرہ بھی وسیع کر دیا ہے۔

پاکستانی نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے نیوز سیکشن کے سربراہ کو شہباز گل کے انٹرویو کے حوالے سے گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ اس ٹی وی کے سی ای او سلمان اقبال اور اینکر پرسن ارشد شریف، بیورو چیف اسلام آباد خاور گھمن اور پروڈیوسر عدیل راجہ کے خلاف بھی مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

بیانات اور پریس کانفرنسیں

شہباز گل کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے مابین پریس کانفرنسیں کرنے اور بیانات جاری کرنے کا تقریباﹰ ایک مقابلہ بھی اب تک جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے مسلم لیگ ن پر الزام لگایا ہے کہ وہ پاکستان آرمی اور پی ٹی آئی میں نا اتفاقی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ایک رہنما عظمیٰ بخاری نے بھی آج شہباز گل کے خلاف ایک بھرپور پریس کانفرنس کی۔

ن لیگ کے مختلف رہنما اسے شہباز گل کا انفرادی عمل قرار نہیں دے رہے بلکہ اس کے تانے بانے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے جوڑ رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ن لیگ کا ایک اسٹریٹیجک میڈیا ونگ اسٹیبلشمنٹ اور آرمی کے خلاف پروپیگنڈے میں ملوث ہے اور وہ اس پروپیگنڈے کا الزام پی ٹی آئی پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پرویز الٰہی نالاں

شہباز گل کے اس بیان پر پی ٹی آئی کے قریبی اتحادی اور وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بھی نالاں نظر آتے ہیں۔

انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے شہباز گل کو اس بیان پر ڈانٹا تھا۔ ان کے خیال میں پی ٹی آئی کو اس بیان سے دوری اختیار کرنا چاہیے تھی۔ لیکن پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے شہباز گل کے اس بیان سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی۔ واضح رہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ملک کے مقتدر حلقوں کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔

’جلیں گے مکان اوروں کے‘

ناقدین کا خیال ہے کہ شہباز گل کے مسئلے کو لے کر پاکستان مسلم لیگ نواز پی ٹی آئی سے اپنے پرانے حساب کتاب چکانا چاہتی ہے۔

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر فوج مخالف بیانات کے باعث کارروائی شروع ہوئی، تو پھر ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتیں بھی نہیں بچ پائیں گی۔

معروف قانون دان اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے بھی ماضی میں اپنی تقریروں میں فوج کے خلاف کھل کر بیانات دیے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' فوج کے خلاف بیانات دینے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں اور اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں نے ہی بیانات دیے ہیں۔

اگر کارروائی شہباز گل کے خلاف ہوئی، تو ممکنہ طور پر ان سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے اور یہ سوال بھی اٹھے گا کہ اگر پی ٹی آئی کے خلاف فوج مخالف بیان پر کارروائی ہو سکتی ہے تو دوسری جماعتوں کے خلاف کیوں نہیں؟‘‘

مکالمت ہونا چاہیے

جسٹس وجہیہ الدین احمد کے خیال میں موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوج اور سیاسی قیادت کو ایک ساتھ بیٹھنا چاہیے اور اپنے اختلافات کو بند کمرے میں حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

''اس طرح سرعام فوج کے خلاف ہرزہ سرائی اور الزام تراشی کسی بھی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتی۔ بالکل اسی طرح سیاسی جماعتوں پر بھی الزام تراشی نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

سلیف سینسرشپ بڑھ سکتی ہے

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ اگر شہباز گل کو سزا ہوتی ہے تو اس کے نتائج بہت منفی بھی ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی تو صرف ان پر مقدمہ قائم ہوا ہے۔ اگر انہیں سزا ہو جاتی ہے اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سزا کو برقرار بھی رکھتے ہیں تو اس سے فوج پر کسی بھی طرح کی تنقید کرنا بہت مشکل ہو جائے گی اور لوگ فوج کے حوالے سے بولنے سے پہلے دس مرتبہ سوچیں گے اور میرے خیال میں اس کی وجہ سے سیلف سنسر شپ میں اضافہ ہوگا۔‘‘

تنقید اور اکسانے میں فرق ہے

سیاست دانوں کا خیال ہے کہ فوج پر مثبت تنقید ہونا چاہیے اور جب کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت کرے تو اس پر تنقید جائز ہے۔

تاہم تنقید کا طریقہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ سپاہیوں کو آپ فوجی قیادت کے خلاف بھڑکائیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ تنقید جمہوری معاشرے کا ایک اہم جزو ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنا پاکستانی شہریوں کا قانونی اور آئینی حق ہے۔ میں نے فوج کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔

پارلیمنٹ میں ان پر تنقید کی ہے۔ حال ہی میں سوات میں طالبان کی آمد جاری ہے اور اس حوالے سے بھی میں نے سوالات کیے ہیں لیکن میرے سوالات کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں سپاہیوں کو فوج کی قیادت کے خلاف ورغلا رہا ہوں جبکہ شہباز گل نے تنقید نہیں کی بلکہ انہوں سپاہیوں کو فوج کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔‘‘

سینیٹر مشتاق احمد خان کے مطابق فوج پر تنقید ایک الگ چیز ہے لیکن اس کو بدنام کرنا اور اس کے خلاف نفرت پھیلانا یا قیادت کے خلاف بھڑکانا ایک قطعی مختلف بات ہے۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات