اصلاحات کیسی اور کتنی؟ ایک سال بعد بھی طالبان تقسیم کا شکار

DW ڈی ڈبلیو بدھ 10 اگست 2022 21:40

اصلاحات کیسی اور کتنی؟ ایک سال بعد بھی طالبان تقسیم کا شکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2022ء) نوے کی دہائی میں طالبان جب ہندو کش کی اس ریاست میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے عام شہریوں بالخصوص خواتین کی آزادیوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایسے اقدامات کیے تھے جنہیں بجا طور پر کریک ڈاؤن کا نام دیا گیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے بانی رکن عمر خالد خراسانی افغانستان میں ہلاک

پھر گزشتہ برس جب افغانستان سے امریکی فوجیوں سمیت تمام غیر ملکی دستوں کا انخلا مکمل ہو گیا اور طالبان تحریک کے جنگجو اس ملک میں دوبارہ اقتدار میں آ گئے، تو ان کی قیادت نے عہد کیا تھا کہ طالبان کا یہ دوسرا دور اقتدار پہلے سے بالکل مختلف ہو گا۔

سطحی حوالے سے دیکھا جائے تو اس مرتبہ طالبان نے افغانستان میں اقتدار میں آ کر پہلے سے تھوڑا سا مختلف رویہ اپنایا ہے۔

(جاری ہے)

مثلاﹰ کابل میں حکومتی اہلکار اب ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کرتے ہیں اور کھچا کھچ بھرے ہوئے سٹیڈیمز میں شائقین کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اسی طرح طالبان کے پہلے دور حکومت میں افغانستان میں اگر ٹیلی وژن پر ملک گیر پابندی لگا دی گئی تھی تو آج عام افغان شہریوں کو انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب ہے اور سوشل میڈیا تک رسائی بھی حاصل ہے۔

افغانستان سے جرمنی کے لیے انخلا میں طالبان کی رخنہ اندازی، رپورٹ

بچیوں کی تعلیم

کابل میں طالبان کی حکومت والے موجودہ افغانستان میں لڑکیوں کو پرائمری اسکول تک تعلیم کی اجازت ہے اور افغان صحافی خواتین حکومتی ڈھانچے کے حصے کے طور پر مرد اہلکاروں کے انٹرویو کرتی بھی نظر آتی ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کے دور میں تو یہ ناقابل تصور تھا۔

اس حد تک طالبان کا موجودہ دور اقتدار پہلے سے مختلف تو ہے لیکن اتنا ہی اہم سوال یہ بھی ہے کہ طالبان کی حکومت افغان لڑکیوں کو پرائمری سے آگے کی سطح کی تعلیم کی اجازت کیوں نہیں دے رہی اور ملکی خواتین کو گزشتہ ایک سال کے دوران اجتماعی قومی زندگی سے کافی حد تک دور کیوں کر دیا گیا ہے؟

طالبان کی سخت گیر قیادت

افغان طالبان کی قیادت کا اندرونی حلقہ بہت سخت گیر سوچ کا حامل ہے۔

اس میں ایسے سابق جنگجوؤں کو بھی پوری نمائندگی حاصل ہے، جو ماضی میں سال ہا سال تک مسلح جدوجہد کر چکے ہیں۔ طالبان کی قیادت کا یہ حصہ کسی بھی طرح کی جامع تبدیلی کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک ایسا کرنے سے سمجھا یہ جائے گا کہ جیسے طالبان نے مغربی دنیا میں اپنے انہی 'دشمنوں‘ کے آگے ہتھیار پھینک دیے ہیں، جن کے خلاف وہ عشروں تک لڑتے رہے ہیں۔

ایران اور افغانستان کی سرحد پر ہونے والی جھڑپ میں ایک طالبان سرحدی محافظ ہلاک ہو گیا

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے افغانستان سے متلعقہ امورکے ماہر ابراہیم باہس کہتے ہیں، ''افغان طالبان میں ایک دھڑا ایسا ہے جو اس عمل کے تسلسل کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، جسے وہ اصلاحاتی عمل کا نام دیتا ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا دھڑا بھی ہے، جو یہ سوچتا ہے کہ اب تک کی بہت معمولی اصلاحات بھی دراصل بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔

‘‘

بیرون ملک منجمد اثاثے

امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے دوران وہاں تبدیلی اور اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش تو کی مگر بالآخر طالبان کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے نہ روک سکے۔ مغربی دنیا نے اپنی کوششوں سے ہندو کش کی اس ریاست کو بینکاری کے عالمی نظام سے گزشتہ تقریباﹰ 20 برسو‌ں‌ سے باہر ہی رکھا ہوا ہے۔

اس تناظر میں افغانستان کے بیرون ملک موجود اربوں ڈالر کے اثاثے بھی منجمد ہیں، جنہیں کابل حکومت کے حوالے کرنے سے پہلے طالبان سے مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کہ وہ ملک میں اصلاحات متعارف کرائے اور خواتین کے حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کا بھی احترام کرے۔

طالبان حکومت میں عورتوں کے ساتھ مار پیٹ اور زیادتی کا سلسلہ جاری، رپورٹ

یہ بات طے ہے کہ جب تک طالبان کی موجودہ حکومت واضح پیش رفت کے ناقابل تردید اشارے نہیں دیتی، افغانستان کے یہ اثاثے کابل کو دوبارہ دستیاب ہو ہی نہیں سکتے۔

لیکن اس کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ افغان عوام کو عرصے سے بہت بڑے اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور وہ ختم ہوتا اب بھی نظر نہیں آتا۔ اب کئی افغان شہری تو زندہ رہنے کے لیے اپنے جسمانی اعضاء فروخت کر دیتے ہیں یا پھر کچھ لوگ اپنے شیر خوار بچے اس لیے بیچ دیتے ہیں کہ اپنے کنبے پال سکیں۔

آج کے افغانستان کی صورت حال

ہندو کش کی اس ریاست میں لڑکیوں کے زیادہ تر ہائی اسکول ایک سال سے بند ہیں۔

سرکاری ملازمتیں کرنے والی بہت سے خواتین اپنے روزگار سے محروم ہو چکی ہیں۔ افغان معاشرہ ایک قدامت پسند اسلامی معاشرہ ہے اور اس کے زیادہ تر حصوں میں موسیقی بجانے، شیشہ پینے اور تاش کھیلنے جیسی مصروفیات پر بھی طالبان کی طرف سے کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔

افغانستان: اقوام متحدہ نے طالبان کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں اور تشدد کی مذمت کی ہے

جہاں تک حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کی بات ہے، تو انہیں سختی سے کچل دیا جاتا ہے اور صحافیوں کو بھی مسلسل ڈرایا جاتا ہے یا جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

طالبان کے سپریم لیڈر کا طرز عمل

افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کئی برسوں سے منظر عام پر دکھائی نہیں دیے۔ وہ طالبان کی نظریاتی طاقت کے گڑھ اور ملک کے جنوبی شہر قندھار میں رہتے ہیں اور اسلامی شریعت کی اپنی سخت گیر تشریحات کے نفاذ کے سلسلے میں اپنے مشیروں کے اس اندرونی حلقے سے مشاورت کرتے ہیں، جس میں مذہبی رہنما بھی شامل ہیں اور بہت تجربہ کار جنگجو کمانڈر بھی۔

اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ افغان طالبان کے لیے ملکی سطح پر کسی بھی تبدیلی کا فیصلہ کرنے کے لیے سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے پیدا شدہ حالات اتنے اہم ہیں ہی نہیں جتنے ان کی یہ تشویش کہ ان کو نظریاتی سطح پر کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔

تبدیلی پر آمادگی کب؟

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کی مشاورت کرنے والی کونسل کے ایک رکن اور ایک اسلامی مدرسے کے سربراہ عبدالہادی حماد کا کہنا ہے، ''اخوند زادہ نے اب تک جو بھی فیصلے کیے ہیں، ان سب کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے مشورے ہی بنے۔

‘‘

افغانستان کو قومی وحدت کی ضرورت، طالبان سپریم لیڈر کا خطاب

کئی ماہرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اگر کبھی طالبان کو اپنا سیاسی وجود خطرے میں پڑتا محسوس ہوا تو کیا ان کی مرکزی قیادت اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر غور کر سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ طالبان اپنی نظریاتی توجہ منتشر کے بجائے مرکوز رکھنے کے عادی ہیں، اس لیے ایسا شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئے کہ طالبان اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوئی ضرورت محسوس کریں۔

م م / ع ا (اے ایف پی)