ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کا اجلاس حج انتظامات، شکایات اور دیگر امور کے متعلق معاملات کا جائزہ لیا گیا

جمعہ 12 اگست 2022 16:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 اگست2022ء) ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کا اجلاس جمعہ کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر محسن عزیز کے 17جنوری 2022کو منعقد ہونے والے سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے بل برائے حضانت اور سرپرستی و ولایت ترمیمی بل 2022کے علاوہ 2022میں حجاج کیلئے وزارت مذہبی امور کی طرف سے حج کے لئے کئے گئے انتظامات، شکایات اور دیگر امور کے متعلق معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

چیئرمین کمیٹی مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے سینیٹر محسن عزیز کے بل کا پہلے بھی جائزہ لیا ہے اور کمیٹی نے اْس میں کچھ ترامیم تجویز کر کے وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کو رائے کیلئے بھیجا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے جواب فراہم کر دیا ہے۔ ڈی جی حج وزارت مذہبی امور نے کمیٹی کو بتایا کہ سینیٹر محسن عزیز کے بل کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور مزید رہنمائی اور رائے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا دیا تھا۔

ڈائریکٹر جنرل ریسرچ اسلامی نظریاتی کونسل قائمہ کمیٹی کو بل کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ گارڈ ین اینڈ وارڈ ز(ترمیمی) بل 2021میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ولایت دو طرح کی ہوتی ہے(1) ذات کی ولایت (2) مال کی ولایت۔ پھر ذات کی ولایت میں تین طرح کی ولایت شامل ہے۔ پرورش کی ولایت، کفالت کی ولایت، نکاح کرنے کی ولایت ان تمام ولایتوں سے متعلق شریعت میں واضح احکامات ہیں، ہر ولایت کی ایک خاص ترتیب ہے۔

مثلا ذات کی ولایت میں جو پرورش کا حق ہے، اس میں ماں اور ماں کی رشتہ دار خواتین کو حق تقدم حاصل ہے جبکہ بقیہ ولایتوں میں ترتیب الگ ہے۔ لہذا ایک ہی فارمولہ کے تحت ہر قسم کی ولایت میں مردوزن کیلئے مساوی ولایت کا قانون و ضابطہ بنانا درست معلوم نہیں ہوتا، اس لئے زیر نظر ترمیم کی بجائے سابقہ دفعہ ہی درست ہے۔ لہذا اس بل میں تجویز کردہ ترامیم کو اسلامی نظریاتی کونسل مسترد کرتی ہے۔

پہلا قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے نئے قانون کی گنجائش نہیں ہے۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی مفتی ا مور عبدالشکور نے کہا کہ ہر ولایت میں مردو زن کو برابر ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہے۔ اس بل کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے ٹھیک ہے اْسی پر عمل کریں ورنہ مسائل پیدا ہوں گے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بل کو تفصیل سے جائزہ لے لیا گیا ہے اور سب کی رائے ہے کہ پہلے سے موجود قانون کو نہ چھیڑا جائے وہی بہتر ہے۔

کمیٹی اس بل کو متفقہ طور پر مسترد کرتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 2022کے قبل از حج انتظامات اور حج کے دوران حجاج کی شکایات و دیگر امور کے متعلق معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ وفاقی وزیر مفتی عبدالشکور اور جوائنٹ سیکرٹری مذہبی امور نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ روایتی طور پر سعودی حکومت حج سے تقریباً پانچ -چھ ماہ قبل ہدایات اور کوٹہ کا اعلان کرتی ہے مگر کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تاخیر سے اعلان کیا گیا اور کابینہ نے بھی اس کی منظور ی تاخیر سے دی۔

کابینہ کی طرف سے حج پالیسی کی منظوری کے بعد حج درخواستیں مدعو کرنے کیلئے کافی وقت دستیاب ہوتا تھا۔ اس سال اتنظامات کیلئے خاسا وقت نہیں دیا گیا۔سعودی حکومت کی طرف سے تاخیر سے اعلان، لازمی حج واجبات کی عدم وصولی اور 16مئی 2022کی آخری تاریخ کی وجہ سے صرف ایک ماہ کا وقت دستیاب تھا۔وقت کی کمی کے باعث وزارت نے 1سے 13مئی 2022تک آن لائن اور 9سے 13مئی 2022تک 14نامزد بنیکوں کے ذریعے پچاس ہزار روپے کی ٹوکن رقم کے ساتھ حج درخواستیں طلب کیں اور مجموعی طور پر 63,604درخواستیں موصول ہوئیں۔

15مئی 2022کو دو وفاقی وزرا کی موجودگی میں کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کی گئی اور سرکاری کوٹہ کیلئے 31,253کامیاب حجاج کو ایس ایم ایس وزارت کی ویب سائٹ کے ذریعے مطلع کیا گیا۔ کابینہ نے 24مئی 2022کو حج پالیسی کی منظوری دی۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ کابینہ سے حج پالیسی کی منظوری کے بعد کامیاب عازمین حج نے پیکج کی بقیہ رقم تین دن کے اندر جمع کرائی اور پاکستان کا مجموعی حج کوٹہ 81,132تھا جو کہ 60:40کے تناسب سے سرکاری اور نجی حج سکیم کے درمیان تقسیم کیا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ سرکاری حج سکیم کوٹہ کی ہزار نشستیں ہارڈ شپ کیسز اور2سو نشستیں کم تنخواہ والے ملازمین /مزدور وں کیلئے مختص کی گئی تھیں اور سرکاری حج سکیم کے تحت متوقع اخراجات 860,177روپے فی حاجی تھے جبکہ منظور شدہ حج پالیسی 2022میں تخمینہ 900,000روپے رکھا گیا تھا جس میں قربانی کے 45,371روپے اور 50ہزار روپے کی ٹوکن منی بھی شامل ہے۔ 10نامزد بینکوں کی جانب سے حج مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم پر مارکنگ میں تاخیر کی وجہ سے 1414حجاج اوور بک ہو گئے جس کیلئے دوہزار اضافی حجاج کا کوٹہ سعودی عرب سے حاصل کرنا پڑا۔

وفاقی وزیر نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری حج سکیم کے حجاج کو 4.88ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی جس کے تحت ہر حاجی کو تقریباً 1.4 لاکھ تک پیسے واپس کئے جائیں گے۔ کمیٹی کو بتایا گیا پرائیویٹ حج آرگنائزر کے منظور شدہ مختلف شدہ پیکجز 9.4لاکھ سے لے کر 31لاکھ کے تھے اور حجاج کی سہولیات کیلئے 810ویلفیئر سٹاف کا مختص کیا گیا جس میں سے وزارتی فلاحی عملہ200، میڈیکل عملہ 243اور معاونین عملہ 367تھا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ سرکاری حجاج کو ”روٹ ٹو مکہ“ کی سہولت دی گئی اور اسلام آباد ایئر پورٹ سے 15ہزار سرکاری حجاج نے روٹ ٹو مکہ کی سہولیات حاصل کیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ حج 2022اپریشن 12ستمبر تک اختتام پذیر ہو گا اور ابھی تک سرکاری حج سکیم کے حجاج کی جانب سے 396شکایات موصول ہوئی ہیں۔ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے وفاقی وزیر برائے مذہبی امو ر مفتی عبدالشکور اور اْن کی ٹیم کو بہترین حج انتظامات کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جمعیت علما ء اسلام کے قائد نے بھی حکومت سے درخواست کی تھی کہ چوں کہ ملک میں مہنگائی زیادہ ہے حجاج کرام کو وفاقی حکومت کم از کم پانچ ارب کی سبسڈی دے جس پر عمل کرنے سے وفاقی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حجاج کرام بھی دوران حج بہتر اور موثر انتظامات پر بہت خوش ہیں جس پر حکومت اور وزارت مذہبی امور کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز گردیپ سنگھ، حاجی ہدایت اللہ، مولوی فیض محمد، انور لال دین، بہرہ مند خان تنگی، پروفیسر ساجد میر، نصیب اللہ بازئی کے علاوہ وفاقی وزیر برائے وزارت مذہبی امور مفتی عبدالشکور، جوائنٹ سیکرٹری برائے مذہبی امور، ڈی جی حج وزارت مذہبی امور، ڈی جی ریسرچ اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔