جامعہ سندھ میں 2 ہزار طالبات گرلز اور 3 ہزار طلبہ بوائز ہاسٹلز میں مقیم ہیں

مالی دبائو پر اگر ہاسٹلز بند کردیئے جائیں تو 2 ہزار طالبات کی تعلیم متاثر ہو سکتی ہے، مختلف شعبوں میں 50فیصد پوزیشنز ہاسٹلر طالبات حاصل کرتی ہیں،ڈاکٹرمحمدصدیق کلہوڑو کا نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ میں تربیت حاصل کرنے والے 44 سول سرونٹس کو خطاب

منگل 16 اگست 2022 22:50

جامشورو(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اگست2022ء) شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو نے کہا ہے کہ جامعہ سندھ میں 2 ہزار سے زائد طالبات سمیت 5 ہزار طلبابوائز و گرلز ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہیں، اگر صوبے کی دیگر جامعات کی طرح مالی بوجھ کم کرنے کیلئے ہاسٹلز ختم کی جائیں تو سندھ کے دیہاتوں سے تعلق رکھنے والی 2 ہزار طالبات اعلی تعلیم سے محروم ہو سکتی ہیں۔

جامعہ سندھ کے مختلف 61 تدریسی شعبے میں زیر تعلیم طلبامیں ہر سال 50 فیصد پوزیشنز ہاسٹلز میں مقیم طالبات حاصل کرتی ہیں، جس کی وجہ انہیں ہاسٹلز میں بہترین ماحول کی فراہمی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے احساس اسکالرشپ کے تحت ملنے والے 32 کروڑ روپے مستحق طلبہ و طالبات میں تقسیم کر چکے ہیں، مزید 16 کروڑ روپے جاری ہوئے ہیں، جو کہ جامعہ کھلتے ہی طلبامیں تقسیم کیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کراچی میں 34 واں مڈٹرم مینجمنٹ کورس کرنے والے مختلف 6 گروپس کے گریڈ 18 کے 44 افسران کے دورہ جامعہ سندھ کے موقع پر انہیں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کراچی ڈاکٹر لبنی ایوب بھی موجود تھیں۔ تاہم رجسٹرار جامعہ سندھ ڈاکٹر غلام محمد بھٹو، پرو وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی ٹھٹھہ کیمپس ڈاکٹر رفیق احمد میمن، ڈینز و دیگر تدریسی و انتظامی سربراہان بھی موجود تھے۔

وائس چانسلر ڈاکٹر کلہوڑو نے کہا کہ وفاقی حکومت کے بعد حکومت سندھ اور سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بھی گزشتہ دو سال سے اسکالرشپس مل رہی ہیں، جو میرٹ پر طلبہ و طالبات کو دی جا رہی ہیں۔ انہوں کہا کہ بطور وی سی اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں انہوں نے داخلوں کا نظام آن لائن کیا اور فنانس ونگ کو کمپیوٹرائزڈ کیا، جس کی وجہ سے مالی لیکیجز بند ہو گئیں ۔

ڈاکٹر کلہوڑو نے ڈائریکٹر جنرل نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کراچی ڈاکٹر لبنی ایوب کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جامعہ سندھ کے افسران کو بھی سول سرونٹس کے ساتھ تربیت فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے، جس سے افسران کی ورکنگ بہتر ہوگی۔ ادارے مضبوط ہونگے تو حکومتیں بھی مضبوط ہونگی۔ جامعہ کی رینکنگ پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جامعہ سندھ، جامعہ کراچی، شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور یا پنجاب یونیورسٹی لاہور کا موازنہ آکسفورڈ یا کیمبرج یونیورسٹیز کے ساتھ تو نہیں کیا جاسکتا، تاہم ملک کے اعلی تعلیمی ادارے اپنی اپنی حیثیت میں بہترین تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جامعہ سندھ تحقیق کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہے اور ہمارے محققین اپنے اپنے شعبوں میں بہترین کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ سندھ میں پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے غریبوں کے بچے پڑھنے آتے ہیں، جنہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ وائس چانسلر نے کہا کہ جامعہ سندھ میں پنجاب، کے پی کے، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور پولیس و فوج کے شہداکیلئے کوٹا موجود ہے، وہاں کے نوجوانوں کو یہاں ضرور داخلے لینے چاہئے۔

انہوں نے اس موقع پر آغا خان و فیڈرل بورڈز کے مقابلے میں سندھ کے تعلیمی بورڈز کی کارکردگی کو بہتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ آغا خان و فیڈر ل بورڈز سے امیروں کے وہ بچے امتحان دیتے ہیں، جن کی تعلیم بڑے شہروں کے مہنگے اسکولز میں حاصل کی ہوئی ہوتی ہے، ان کا موازنہ سندھ کے سرکاری اسکولز میں پڑھنے والے بچوں کے ساتھ کرنا ٹھیک نہیں ہے، اس کے باوجود سرکاری اسکولز کے بچے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔

سندھ میں سرکاری اسکولز میں بھی اساتذہ محنت کراتے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر لبنی ایوب نے گرم جوشی سے خوش آمدید کرنے پر وائس چانسلر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کراچی میں جامعہ سندھ کے افسران کو بھی سول سرونٹس کے ساتھ تربیت دلائی جائے گی۔ پروگرام کی کمپیئرنگ کے فرائض ڈاکٹر غلام اکبر مہیسر نے انجام دیئے، تاہم عمران قریشی نے انسٹیٹیوٹ کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔