Live Updates

گرفتارشہبازگل کا 2 دن کا مزید جسمانی ریمانڈ دے دیاگیا

تحریک انصاف کا فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ جانے کا اعلان

بدھ 17 اگست 2022 21:56

گرفتارشہبازگل کا 2 دن کا مزید جسمانی ریمانڈ دے دیاگیا
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 اگست2022ء) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جج زیبا چوہدری نے غداری کے مقدمے میں گرفتار شہباز گل کا 2 دن کامزید جسمانی ریمانڈ دے دیا۔دو دن بعد ملزم کو پھر عدالت میں پیش کرنے کا حکم۔ پی ٹی آئی نے عدالتی فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ جانے کا اعلان کر دیا۔ تفصیل کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما شہبازگل پر افواج پاکستان کے خلاف اکسانے کا الزام ہے۔

شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی۔پولیس نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ہونے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کررکھی تھی۔ ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کیس کی سماعت کی۔شہباز گل کے وکلاء سلمان صفدر اور فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ شہباز گِل کی گرفتاری کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے دو روز کا جسمانی ریمانڈ دیا تھا۔

تفتیشی افسر کی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔ملزم بار بار جھوٹ بول رہاہے۔ پولی گرافک ٹیسٹ کروانا ہے۔اسپیشل پروسیکیوٹر رضوان عباسی نے شہباز گل پر مقدمے میں درج الزامات عدالت کے بتائے ڈیوٹی مجسٹریٹ کو تمام پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے لیکن استدعا مسترد کردی گئی۔پیمراہ سے انٹرویو کی مزید تفصیلات لیکر ایف آئی اے کو بھیج دی گئی ہیں۔

ڈیوٹی مجسٹریٹ نے کیسے فیصلہ دیدیاکہ ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں چاہیے، ابھی ملزم کی مزید تفتیش مکمل کرنی ضروری ہے۔ملزم شہبازگل پولیس کے سامنے اقرار کرچکے ہیں کہ ان کا ایک موبائل فون ڈرائیور کے پاس ہے۔تفتیشی افسر نے واضح لکھا کہ محض ریکوری نہیں بلکہ مختلف پہلوؤں پر تفتیش بھی کرنی ہے۔ملزم شہبازگل ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

نہیں چاہتا ثبوتوں کو ختم کردیا جائے۔پولیس نے ملزم شہبازگل کابیان سچ پر مبنی قرار نہیں دیاتھا۔جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کے بیان کو حتمی کیسے مان لیا قانون شہادت کے مطابق درست نہیں ہے۔عاشورہ کی وجہ سے سگنل بند ہونے کا جواز بھی درست نہیں ہے۔معمولی نوعیت کے کیسز میں آٹھ دس روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جاتا ہے۔ یہ تو مجرمانہ سازش کا کیس ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر پڑھ کر سنایا۔کیا ملزم کو کہیں سے کال آئی یا انہوں نے فوراً پیپرپر ایسا بیان دیا کس نے ملزم کے اسکرپٹ کی منظوری دی ابھی تفتیش کرنا باقی ہے۔اگر پولیس جسمانی ریمانڈ کیلئے مزید وقت کی استدعا کررہی ہے تو انہیں دی جانی چاہیے۔تفتیشی افسر کا تفتیش کے حوالے سے مطمئن ہونا لازمی ہے۔

تفتیشی افسر نے واضح کہا ہے کہ اسے مزید جسمانی ریمانڈ کے لیے وقت چاہیے۔اسلام آباد پولیس نے ہر دن ملزم کی تفتیش کے لیے نتیجہ خیز بنایا جائے۔تفتیشی افسر نے یہ نہیں کہا کہ اس کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور مزید جسمانی ریمانڈ مانگا ہے۔جوڈیشل مجسٹریٹ کی تفتیشی افسر کی استدعا مسترد کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔مجسٹریٹ نے تفتیشی افسر کی استدعا محض مفروضے کی بنیاد پر مسترد کی ہے۔

اس الزام کے ساتھ مبینہ کا لفظ استعمال کیا جائے۔شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے لقمہ دیا۔اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے ماضی کے مختلف سپریم کورٹ کے فیصلے پڑھ کر سنائے۔اگر تفتیشی افسر کہتا کہ ملزم کا موبائل ڈیٹا چاہیے تو میں جسمانی ریمانڈ کی حمایت نہیں کروں گا۔یہاں تو الزام اٴْن الفاظ کا ہے جو ملزم نے نجی چینل پر کہے۔ملزم سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش کیلئے جسمانی ریمانڈ بہت ضروری ہے۔

12 اگست کو مجسٹریٹ کی جانب سے دیاگیا آرڈر غیر آئینی ہے۔ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو ٹھیک طرح ہینڈل نہیں کیاگیا۔ پولیس کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو منظور کیاجائے۔اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے اپنے دلائل مکمل کئے تو شہبازگل کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کے سامنے دلائل دینا شروع کردیے۔۔وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ریمانڈ میں چند پہلوؤں کو خفیہ قرار دیاگیاہے۔

پولیس کو ملزم شہبازگل کا جسمانی ریمانڈ چاہئے کیوں اس کا تعین کرنا ضروری ہے۔شہباز گل کے خلاف درج مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ہمیں کیس کا ریکارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ملزم کو اسپاٹ سے گرفتار کیاگیا۔کوئی موبائل فون کے بغیر نہیں گھومتا ہے۔شہبازگل نے گرفتاری کے وقت اپناموبائل فون جیب میں ڈالا جو ویڈیو میں واضح ہے۔پولیس کے پاس ہی تو موبائل ہے تو پھر موبائل کیوں مانگ رہیہیں۔

کیس میں کمپلیننٹ کیا عدالت میں موجود ہی مجھے محسوس نہیں ہورہا ہے۔شہبازگل کا کیس صرف الفاظ اور تقریر پر مبنی ہے اور تقریر تو پولیس کے پاس پہلے سے موجود ہے۔پنجاب فورینسک سائنس ایجنسی نے 24 گھنٹوں میں تحقیقات بھیج دیں، تفتیشی افسر نے کیوں تفتیش مکمل نہیں کی شکایت کنندہ ایک مجسٹریٹ ہے جس نے بیوروکریسی اور افواج پاکستان کی طرف سے کیس فائل کیاگیا۔

وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر بغاوت کا مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا ہے۔عدالت پراسیکیوشن سے معلوم کرے کہ کیا وفاقی کابینہ کی اجازت لی گئی تھی۔تقریر کا مخصوص حصہ مقدمے میں درج کیاگیاجو نامناسب ہے۔ٹیلیویڑن اینکر نے سوال پوچھا جس پر جواب دیاگیا۔اس میں پہلے سے پلان کیسے کچھ ہوسکتا ہے۔مجسٹریٹ نے تین دن کا جسمانی ریمانڈ دیاتھا۔فوراً استدعا مسترد نہیں کی تھی۔

ملزم شہبازگل نے تقریر میں مریم نواز،کیپٹن صفدر،نواز شریف، ایاز صادق بشمول 9 ن لیگ کے رہنماؤں کے نام لیے۔صاف ظاہرہے کہ کیس کے زریعے سیاسی انتقام لیاجارہاہے۔پراسیکیوشن کے مطابق شہباز گل نے اپنی تقریر تسلیم کر لی، پھر باقی کیا رہا ہے۔پراسیکیوشن زیادہ زور دے رہی ہے کہ شہباز گل نے کسی کے کہنے پر تقریر کی ہے۔کچھ چیزیں غلط تو ہو سکتی ہیں لیکن وہ بغاوت، سازش یا جرم میں نہیں آتیں ہیں،پراسیکیوشن کو شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ شریک ملزم تک پہنچنے کیلئے چاہیے۔

ملزم شہبازگل سیاسی رہنما ہیں لیکن بہت ووکل ہیں۔اتنا ووکل نہیں ہونا چاہیے۔شہباز گل کی تقریر محب وطن تقریر ہے۔اس کے کچھ حصے نکال لییگئے ہیں۔شہباز گِل نے سوال کا لمبا جواب دیا۔ اس میں کچھ باتیں غلط کہہ دی گئیں ہیں۔ شہباز گل کے زریعے نشانہ کسی اور کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جنہوں نے گاڑی کا شیشہ توڑا، کیا وہ گاڑی کا شیشہ توڑنے تک ہی مخصوص رہیں گی تفتیشی افسر نے کہاکہ حساس نوعیت کا مقدمہ ہے۔

ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔تفتیشی افسر نے کہاموبائل ریکوری کروانی تاکہ وائس میچنگ کروائی جاسکے۔تفتیشی افسر نے کہا غیرملکی اناثر شامل ہیں اور بینک اکاؤنٹس حاصل کرنی ہیں۔شہباز گل کے خلاف جو دفعات لگائی گئیں وہ سزائے موت اور عمر قید کی ہیں۔میڈم آپ بتائیں۔ کیا اس تقریر پر سزائے موت کی دفعات بنتی ہیں۔ وکیل وکیل سلمان صفدر کا جج سے مکالمہ ہوا۔

موبائل فون گرفتاری کے وقت ہی کیلیاگیاتھا۔تفتیشی افسر تین دنوں میں تفتیش نہ کر پائے حالانکہ موبائل ان کے پاس تھا۔لینڈ لائن سے فون کیاگیا۔ یوم عاشورہ پر موبائل فون ہی بند تھاساری چیزیں ملزم نے نہیں دینی، تفتیشی افسر نے بھی کچھ کرناہے۔لینڈ لائن کو اکھاڑ کر نہیں لجایاجاتا۔ جسمانی ریمانڈ کی اس میں کہاں ضرورت ہے۔یہ کیس سائبر کرائم کا ہیہی نہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما فواد چوھدری بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔لیپ ٹاپ کی ریکوری کا تفتیش سے کوئی تعلق ہیہی نہیں ہے۔یہ کیس 164 قانون شہادت کا کیس ہے۔جسمانی ریمانڈ کا نہیں ہے۔ریکوری کسی دوسرے سے نہیں کی جاتی۔پولیس نے ڈرائیور سے موبائل لینے پر مقدمہ درج کردیا گیا۔کیس سیدھا سادھا جوڈیشل کرنے والا ہے ور واضح ہے۔پولیس نے اب تک نجی چینل سیکوئی معمولات حاصل نہیں کی ہیں۔

مجسٹریٹ نے بہترین فیصلہ کیاجو قوانین پر مبنی تھا۔پراسیکیوشن کے پاس ضمانت پر دلائل دینے کا کوئی جواز ہی نہیں بچتا ہے۔کیس چھوٹا سا ہے۔بات کا بتنگڑ بنادیاگیاہے۔سب کو معلوم ہیکہ شہبازگل کاکیس بہت اہم ہے۔ تفتیشی افسر کو بھی معلوم ہوناچاہییتھا۔ضمانت کا کیس ہے، میں عدالت کا وقت جسمانی ریمانڈ پر دلائل دیکر ضائع کررہاہوں۔صغریٰ بی بی کا کیس ایسا ہی تھا۔

کراچی کے مجسٹریٹ نے کیس ہی خارج کردیا تھا۔پرائیویٹ پارٹس پر ٹارچر کرنا نہ قابل قبول ہے۔اس سے زیادہ ٹارچر نہیں دیا جاسکتا ہے۔یہ شہبازگل کو مزید ٹارچر کرنے کے تعاقب میں ہیں۔قریر کسی پلاننگ کے بغیر کی گئی۔سوال کیاگیا۔ جواب دیاگیا ہے۔تفتیش کے وقت غیراخلاقی الفاظ کا استعمال کیاگیا ہے۔مقدمہ سیاسی انتقام پر مبنی ہے۔کمپلیننٹ کو اب تک دیکھاہی نہیں گیا ہے۔

شہباز گل کو ٹارچر کرنے کی تصاویر دکھانے کے لیے تیار ہوں۔جسمانی ریمانڈ کا مقصد مزید ٹارچر کرنا ہے۔میری ناقص پیشنگوئی ہے شہبازگل کا کیس ضمانت کی حد تک رہیگا۔جو مقدمات پگڑیاں اچھالنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ان میں جلد ریکیف دے دینی چاہیے۔شہبازگل کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کے روبرو دلائل مکمل کرلیے۔شہبازگل کے وکیل شعیب شاہین نے بھی عدالت کے سامنے دلائل دینا شروع کردیے۔

وکیل شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ شہباز گل کے مخصوص جملوں کو تفتیش میں شامل کیاگیا۔شہبازگل نیکہا مجھے زہنی طور پر ٹارچر کرتیہیں۔شہبازگل کہتیہیں مجھ سے پوچھتے ہیں عمران خان شراب پیتاہییا نہیں کیا مریم نواز کے نعرے نظر نہیں آتی نوازشریف اور فضل الرحمان کیبیانیات نظر نہیں آتی سول سروس کو انڈیپینڈنٹ انسٹیٹیوٹ ہونا چاہیی. سیاسی انتقام لینے کے لیے پریشر ڈالا جارہاہے۔

اگر ضمانت ہو بھی گئی تب بھی تفتیش سے نہیں اگیں گے۔وکیل شعیب شاہین نے عدالت کے روبرو اپنے دلائل مکمل کرلیے۔اسپیشل پروسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے تردیدی دلائل دینا شروع کردیے۔ملزم شہبازگل کے پاس دو موبائل تھے۔ایک سمارٹ فون اور ایک عام موبائل ہے۔ملزم کا اسمارٹ فون ریکوری کرنا ابھی باقی ہے۔موبائل فون کسی بھی انسان کی پرائیویٹ پراپرٹی ہوتی ہے اور یہی ریکور کرناباقی ہے۔

انفورمیشن موصول ہونیکیبعد پولیس نے مقدمہ درج کیا۔مقدمہ جھوٹ پر مبنی نہیں ہے۔آزادی اظہار رائے کی آڑ میں شہبازگل نے دیگر جرم بھی کیے۔بار بار جسمانی ریمانڈ نہیں مانگ رہے۔تفتیشی افسر کو جسمانی ریمانڈ لینے کا مکمل وقت فرام نہیں کیاگیا۔شہبازگل کا دو بار میڈیکل کیاگیا۔کوئی ٹارچر کا ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔انٹرویوز کبھی ایک دم نہیں ہوتے۔

انٹرویوز سے پہلے جو ہوتارہا وہ بھی سامنے آنا چاہیے۔اسپیشل پراسیکیوٹر رسجہ رضوان عباسی نے تردیدی دلائل مکمل کرلیے۔اس کیس میں ایک سے زیادہ لوگ سازش میں شامل ہیں۔تحقیقات ریکوری کا نام نہیں۔تحقیقات میں دیگر پہلوؤں کو بھی بروئے کار لانا ہوتاہے۔ایڈیشنل سیشن جج زیباچوہدری نے فیصلہ محفوظ کرلیااوربعد ازاں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج زیباچوہدری نے ملزم شہباز گل کو 2 دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا جبکہملزم کو دو دن بعد عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا،دوسری جانب پی ٹی آئی نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ جانے کا اعلان کر دیا۔۔۔ عامر چوہدری
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات