کیبلز پر چلنے والے پوڈز میں عوام کا سفر اور بھاری بھرکم کنٹینرز کی تیزرفتار منتقلی

شارجہ میں 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر چلنے والے ٹرانسپورٹ کے جدید ترین سسٹم کے دسمبر تک آپریشنل ہونے کی امید ظاہر کردی گئی

Sajid Ali ساجد علی جمعہ 19 اگست 2022 14:58

کیبلز پر چلنے والے پوڈز میں عوام کا سفر اور بھاری بھرکم کنٹینرز کی تیزرفتار ..
شارجہ ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 19 اگست 2022ء ) شارجہ میں شپنگ کنٹینرز کی نقل و حمل اور متحدہ عرب امارات کی گرین ڈرائیو کو فروغ دینے کے لیے الیکٹرک اسکائی پوڈز پر مشتمل ٹرانسپورٹ کا جدید ترین سسٹم بہت جلد عوام کیلئے کھول دیا جائے گا، عوام کے سفر کے علاوہ نیا کنٹینر ٹرمینل بھی مکمل بھاری بھرکم کنٹینرز کی تیزرفتار منتقلی کا کامیاب تجربہ کرلیا گیا۔

دی نیشنل کی رپورٹ کے مطابق شپنگ کنٹینر ٹرمینل شارجہ کے ایک ٹیسٹ سینٹر میں تازہ ترین اضافہ ہے جس کا مقصد کیبلز کے ذریعے لے جانے والے پوڈز کے جدید نظام کے ساتھ بڑے پیمانے پر ٹرانسپورٹ کو آسمانوں تک لے جانا ہے، شارجہ ریسرچ، ٹکنالوجی اور انوویشن پارک میں یو اسکائی ٹرانسپورٹ کی طرف سے تیار کردہ یوکونٹ سسٹم کے دسمبر تک ٹیسٹ سائٹ کے طور پر تیار ہونے اور چلنے کی امید ہے۔

(جاری ہے)

 

اس ٹیکنالوجی کے کام کرنے کے تصور کے ثبوت کے طور پر سائٹ کے 14 ملین ڈالر کے uSkyTest اور سرٹیفیکیشن سینٹر میں مسافر پوڈز پہلے سے ہی کام کر رہے ہیں تاہم ایک بار آپریشنل ہونے کے بعد زائرین یہ دیکھ سکیں گے کہ اس وقت سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والی ہزاروں بھاری سامان کی گاڑیوں کے متبادل کے طور پر کس طرح برقی تاروں پر شپنگ کنٹینرز کو تیز رفتاری سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔


اس حوالے سے USky ٹرانسپورٹ کے چیف ایگزیکٹیو اولیگ زرتسکی نے کہا کہ اب کنٹینر ٹرمینلز مکمل ہو چکے ہیں ہم سٹرنگ ریلوں کو سخت کر رہے ہیں جو کافی بڑا کام ہے، ہمیں امید ہے کہ پہلا کنٹینر دسمبر یا جنوری کے شروع میں منتقل ہو جائے گا، اس لائن میں مسافر پوڈز کے ساتھ کنٹینر پوڈز بھی ہوں گے جنہیں 2.4 کلومیٹر کے ٹریک کے ساتھ منتقل کیا جا سکتا ہے، کنٹینر نیٹ ورک تھوڑی مختلف ٹریک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔


انہوں نے کہا کہ مکمل طور پر تیار کنٹینر بجلی کی معمولی کھپت کے ساتھ تقریباً 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرے گا، کنٹینر ٹریک کو چلانے کے لیے لگ بھگ 20 ڈالر فی کنٹینر کے براہ راست اخراجات ہوں گے، اس کا ٹریک بہت مہنگا ہے جس پر ہر کلومیٹر کے لیے 15 ملین ڈالر تک لاگت کا تخمینہ ہے تاہم صلاحیت اور طلب میں اضافے کے ساتھ ہی یہ اخراجات گر جائیں گے۔