’مر تو سکتا ہوں، فوجی آمر کے سامنے جھکوں گا نہیں‘

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 26 اگست 2022 18:20

’مر تو سکتا ہوں، فوجی آمر کے سامنے جھکوں گا نہیں‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اگست 2022ء) نواب اکبر بگٹی سے میرا پہلا رابطہ سن 1990 میں کراچی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ تکبیر کے لیے ایک انٹرویو سے ہوا۔ میں ان کا انٹرویو کرنے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں واقع ان کی رہائش گاہ پہنچا تو گلی میں جدید ہتھیاروں سے لیس بگٹی قبیلے کے محافظ جگہ جگہ پہرا دے رہے تھے۔

میری آمد کی اطلاع محافظوں کو فراہم کر دی گئی تھی لہذا میرے دروازے پر پہنچتے ہی ایک نوجوان گھر کے اندر سے باہر آیا اور مجھ سے نام معلوم کرنے کے بعد مجھے اپنے مہمان خانے میں لے گیا۔

روایتی بلوچی انداز میں خاطر مدارات کے بعد دائیں ہاتھ میں چھڑی اور بائیں ہاتھ میں کتاب تھامے نواب اکبر بگٹی کمرے میں داخل ہوئے۔

ذاتی خدمت گار اور محافظ اس وقت بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے پہلے ایڈیٹر صلاح الدین کی خیریت دریافت کی، دونوں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ایک سال جیل کاٹ چکے تھے تو دونوں کے درمیان خاصہ گہرا تعلق بھی تھا۔

’’آپ ہمارے مہمان ہیں‘‘

بگٹی صاحب نے محافظوں کو مہمان خانے سے باہر جانے کی ہدایت کی، جس کے بعد وہ طویل انٹرویو شروع ہوا، جس کے دوران بعض سوالات انہیں ناگوار بھی گزرے اور انہوں نے کھل کر اس پر ناراضی کا بھی اظہار کیا۔ لیکن پھر فوراﹰ ہی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں، ''آپ ہمارے مہمان ہیں۔‘‘

اس انٹرویو میں بھی نواب اکبر بگٹی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض دکھائی دیے تھے۔

صوبہ پنجاب کو انہوں نے اس وقت بھی بلوچستان کا استحصال کرنے والا صوبہ قرار دیا تھا۔

’قبیلے کو قبیلے سے لڑایا جا رہا ہے‘

نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے گورنر اور وزیر اعلٰی کے منصب بھی فائز رہے لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا۔ اپنے انٹرویو کے دوران انہوں نے واضح طور پر کہا کہ 'نادیدہ قوتیں‘ بلوچستان میں ایک قبیلے کو دوسرے سے لڑا رہی ہیں، جس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

فاروق لغاری کے صدر مملکت منتخب ہونے کا واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف انہیں صدارتی امیدوار کے طور پر مدد فراہم کرنے کا وعدہ کر کے اپنی بات سے مکر گئے تھے۔ بے نظیر نے فاروق لغاری اور نواز شریف نے وسیم سجاد کو امیدوار نامزد کر دیا۔ نواب زاد نصر اللہ خان کے اعتراض پر نواز شریف نے رابطہ کیا تو میں نے جواب دیا کہ بلوچ کے پاس سوائے زبان کے بچا ہی کیا ہے؟ اگر بلوچ زبان سے بھی پھرنے لگے تو ننگے ہو جائیں گے۔

اس انٹرویو کے بعد نواب صاحب اور میرے درمیان اعتماد کا تعلق قائم ہو گیا تھا۔ وہ کراچی آتے یا میں ڈیرہ بگٹی جاتا تو ملاقات لازمی تھی، جس میں ہر موضوع پر کھل کر بات ہوتی تھی لیکن جب انہوں نے کراچی آنا ترک کر دیا تو پھر ان سے کئی مرتبہ ملاقات کے لیے کوئٹہ بھی جانا ہوا۔

’مر تو سکتا ہوں، فوجی آمر کے سامنے جھکوں گا نہیں‘

دوسری مرتبہ سن 2005 میں ڈوئچے ویلے کے لیے ایک انٹرویو کرنے کی خاطر ڈیرہ بگٹی جانا ہوا۔

اس وقت وہاں کے حالات خراب ہونا شروع ہو چکے تھے۔ انٹرویو کے دوران کئی بار ان کی باتوں سے محسوس ہوا کہ انہوں نے مفاہمت کی بجائے مزاحمت کے راستے کا انتخاب کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''جنرل مشرف مجھے جھکانا چاہتا ہے، میں مر تو سکتا ہوں لیکن ایک فوجی آمر کے سامنے جھکوں گا نہیں۔‘‘

نواب صاحب بین الاقوامی حالات سے واقفیت اور ان کا جائزہ لینے کے لیے عالمی جرائد کا باقاعدگی سے مطالعہ کیا کرتے تھے۔

جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کی پالیسی انہیں پسند تھی۔ 2005ء میں ہی انہوں نے شپیگل کے فارن ڈیسک ایڈیٹر کو خصوصی انٹرویو بھی دیا تھا۔ یہ انٹرویو کراچی میں متعین جرمن قونصل جنرل اور سردار شیرباز مزاری کی مدد کے باعث ممکن ہوا۔ اس وقت بلوچستان کے شورش زدہ حالات کے باعث انٹرویو کے سہولت کاروں کے نام صغیہ راز میں رکھے گئے تھے۔

اس سارے معاملے میں دلچسپ امر یہ ہے کہ شپیگل کی ایڈیٹر نواب اکبر بگٹی کا انٹرویو کرنے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کا انٹرویو کرنے کراچی سے اسلام آباد گئی تھیں لیکن خفیہ ادارے اس تمام معاملے سے لاعلم رہے۔

شپیگل کی ایڈیٹر نے بعد میں مجھے بتایا تھا کہ حالات اچھے نہیں ہیں اور جنرل مشرف کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ یہ صورت حال اکبر بگٹی کے لیے کسی بڑے سانحے کا سبب بنے جائے۔

اور پھر ایسا ہی ہوا۔ 26 اگست کو نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے پہاڑوں کے درمیان ایک غار میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک مبینہ جھڑپ میں ہلاک ہو گئے۔

اس کے بعد سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی فوج سے ناراضی جاری ہے اور وہ نہ صرف سکیورٹی فورسز بلکہ حکومتی اہلکاروں کو بھی نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ناراض بلوچوں کی منانے اور امن مذاکرات کی متعدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔