اسلام آباد ہائیکورٹ، ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 29 ستمبر تک ملتوی

منگل 20 ستمبر 2022 20:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 ستمبر2022ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

(جاری ہے)

منگل کو سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز، کپٹن (ر)صفدر اپنے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے،نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردارمظفر عباسی نیب پراسیکیوشن ٹیم کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے،پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما پرویز رشید، عطاء تارڑ اور دیگر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے،سماعت شروع ہونے پر جسٹس عامرفاروق نے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلائل مکمل کر لیے تھے اور اب نیب کی باری ہے،نیب پراسیکیوٹر عثمان چیمہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہاکہ 23 جون 2021 کو عدالت نے نواز شریف کی اپیل خارج کی، موجودہ اپیل جرم میں معاونت سے متعلق ہے، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ مریم نواز کی اپیل میرٹ پر سنیں گے،انہوں نے اپنا کیس بنایا ہے کہ عدالتی فیصلے میں کیا قانونی سقم ہیں،اب آپ نے اس کا دفاع کرنا ہے،نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کا کردار مرکزی ملزم کی معاونت کا تھا، عدالت نے کہاکہ نوازشریف کا کیس ہمارے سامنے نہیں تو یہ مطلب نہیں اِن پر فرد جرم ٹھیک ثابت ہو گئی،مریم نواز کے وکیل نے میرٹس پر دلائل دیئے آپ میرٹس پر جواب دیں، پراسیکیوٹر نے کہاکہ مریم نواز کے خلاف نواز شریف کی اعانت کا چارج فریم کیا گیا تھا، نیب پراسیکیوٹرنے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ فیصلوں کا حوالہ دیا، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ سپریم کورٹ نے جو آبزرویشن دیں اس کا آپ کو ابھی فائدہ نہیں ملنا،نیب کو تمام الزامات آزادانہ طور پر ثابت کرنے تھے ، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ سپریم کورٹ کی وہ آبزرویشن ٹرائل سے پہلے تک تھیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر یہ کیسز بنائے گئے تھے،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ ہم نے تو ٹرائل کی کارروائی کو دیکھنا ہے،سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ریفرنس دائر اور ٹرائل ہوا،اس اپیل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی تعلق نہیں، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ یہ تو اس کیس کا پس منظر ہے، اب آپ آگے چلیں،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ جے آئی ٹی کے بعد نیب نے بھی مزید تفتیش کی؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایاکہ نیب نے بھی آزادانہ تفتیش کی، ملزمان کو کال اپ نوٹسز بھجوائے گئے،مریم نواز نے نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے میں معاونت کی،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ نے بتانا ہے کہ مریم نے کس انداز میں نواز شریف کی معاونت کی؟، عدالت نے کہاکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کیخلاف آپ کا کیس کیا ہے ایک لائن میں بتائیں، پراسیکیوٹر نے کہاکہ مریم نواز نے والد کی جائیداد بنانے اور چھپانے میں معاونت کی،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ نے پھر بتانا ہے1993 میں مریم نواز نے جائیداد لینے میں مدد کی،عدالت نے کہاکہ یا تو آپ بتائیں مریم نواز کا کردار 1993 میں جائیداد لینے میں تھا،یا پھر بتائیں ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر اُس جائیداد کو بنانے میں 2006میں مدد کی،جسٹس عامرفاروق نےنیب پراسیکیوٹر سے کہاکہ آپ خود کو بند گلی میں لے کر جا رہے ہیں،جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ اگر اثاثے بنانے میں معاونت کی تو پھر ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلبری فونٹ کو چھوڑ کر 1993 سے چلیں، جس پر پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم اس معاملے کو 2006 میں ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ لے کر چلیں گے،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ پھر تو 1993 میں مریم نواز کا کوئی کردار نہیں ہوا،ہم نے ایک فیصلہ لکھنا ہے تو ہمیں سب چیزوں میں کلیئر ہونا چاہیے،یہ اپارٹمنٹس کیسے خریدے گئے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول نے یہ اپارٹمنٹس خریدے، عدالت نے کہاکہ اگر ٹرسٹ کو نکال دیں تو پھر نیب کا کیا کیس ہے ؟،جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ ہی مریم نواز کا کیس دیکھا جانا ہے،مریم نواز نے 2006 میں مدد اور معاونت کی، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے 1993 میں اثاثے خریدے اور چھپائے،آپ نے پھر شواہد سے ثابت کرنا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی مدد اور معاونت کیسے کی؟ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ ہم وہ ٹریک کلیئر کر رہے ہیں جس پر آپ نے آگے جانا ہے،امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ نیلسن اور نیسکول برٹش ورجن آئی لینڈ کے پاس رجسٹرڈ ہیں،نیلسن اور نیسکول نے 1993، 1995 اور 1996 میں اپارٹمنٹس خریدے، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ کیا ابھی ان اپیلوں کے لیے یہ سوال متعلقہ ہے کہ یہ پراپرٹیز کیسے خریدی گئیں؟،پہلے آپ نے یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ پراپرٹیز نواز شریف نے خریدیں،اگر وہ پراپرٹیز خریدی گئیں تو پھر اس میں معاونت کا الزام آئے گا،ہم مفروضے پر نہیں جا سکتے، ہم نے حقائق کو دیکھنا ہے،اگر آپ نے ٹرائل کورٹ میں یہ ثابت کیا ہے تو وہ بتائیں،پراسیکیوٹر نے کہاکہ میں نواز شریف کے کیس سے شروع کروں گا پھر مریم نواز پر آوں گا،نواز شریف کی اپیل اس کیس میں خارج ہو چکی ہے، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ نوازشریف کی اپیل میرٹ پر نہیں ، عدم پیشی پر خارج ہوئی تھی،نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ حقائق لیکن یہی ہیں کہ نواز شریف کی حد تک نیب کورٹ کا فیصلہ برقرار ہے،نوازشریف نے سپریم کورٹ میں ایک واضح موقف لیا تھا،عدالت نے کہاکہ نوازشریف نے کیا کہیں بھی کہا تھا یہ جائیداد اُن کی ہے؟، اس موقع پر مریم نواز کے وکیل نے کہاکہ نواز شریف نے کسی بھی فورم پر نہیں کہا جائیداد ان کی ہے،نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ نواز شریف اسی گھر میں وہاں جا کر رہتے تھے، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ پاکستان میں آدھے لوگ دوسروں کے گھروں میں رہ رہے ہیں،نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نواز شریف اور ان کے بچے وہاں پر رہ رہے تھے،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ پبلک نالج کی کسی بات پر آپ پر ذمہ داری عائد تو نہیں ہو جاتی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ آپ فی الحال صرف پراپرٹی کی ملکیت کو نواز شریف سے لنک کر دیں،یہاں تو آدھا پاکستان دوسروں کے گھروں میں رہ رہا ہے،نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ چار فلیٹس کی اونر شپ پر کسی کا کوئی اعتراض نہیں، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ پہلے یہ سمجھائیں کہ 1993 میں نیلسن اور نیسکول کا نواز شریف سے کیا تعلق تھا، عدالت نے ہدایت کی کہ نیلسن اور نیسکول کا ٹائٹل ڈاکومنٹ دیکھائیں، ولایت میں بھی کوئی اتنا اچھا نہیں کہ فری میں کوئی پراپرٹی دے، وہ پیمنٹ کس نے کی ؟ آپ کے بقول کمپنیوں نے نواز شریف کی طرف سے پیمنٹ کی ؟، آپ نے ثابت کرنا ہے کہ نواز شریف نے پیمنٹ کی اور ان کے بینیفشل اونر نواز شریف ہیں، پراسیکیوٹر نے کہاکہ نوازشریف نے سپریم کورٹ میں ایک واضح موقف لیا تھا، عدالت نے کہاکہ نواز شریف نے کیا کہیں بھی کہا تھا یہ جائیداد اُن کی ہے؟، مریم نواز کے وکیل نے کہاکہ نواز شریف نے کسی بھی فورم پر نہیں کہا جائیداد ان کی ہے،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ اس سے زیادہ آسان زبان میں نیب سے سوال نہیں کرسکتے، دلائل جاری رہے اور عدالت نے ایون فیلڈریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت 29 ستمبرتک کیلئے ملتوی کردی۔