سیاسی اور عسکری مقاصد کے حصول کے لیے فضائی طاقت عملی طور پر سیاسی و عسکری قیادت کا ترجیحی انتخاب بن چکی ہے،سابق عسکری قیادت

جمعہ 23 ستمبر 2022 21:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 ستمبر2022ء) سابق عسکری قیادت نے کہا ہے کہ سیاسی اور عسکری مقاصد کے حصول کے لیے فضائی طاقت عملی طور پر سیاسی و عسکری قیادت کا ترجیحی انتخاب بن چکی ہے۔ان خیالات کا اظہار ایئر وائس مارشل(ر)ناصر الحق وائیں ، ایئر وائس مارشل (ر)فائزامیر ، اور ایئر مارشل (ر)فاروق حبیب نے سینٹر فار ایروسپیس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار "مستقبل میں پاک بھارت تنازعہ میں فضائی طاقت کی اہمیت" سے خطاب کر رہے تھے ۔

برصغیر میں فضائی طاقت کے استعمال کے تاریخی اور تذویراتی پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے ایئروائس مارشل(ر) ناصر الحق وائیں نے فضائی قوت کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس امر پر زور دیا کہ معاشرے کے ہر طبقے میں فضائی قوت کی اہمیت کے احساس کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔

(جاری ہے)

ایئر وائس مارشل(ر) فائز امیر نے بدلتے ہوئے بین الاقوامی سیاسی منظر نامے کے تناظر میں جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور جنوبی ایشیا میں فضائی طاقت کے توازن پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی نظام میں تبدیلی محض قیادت کی سادہ اور عمومی تبدیلی نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک گہرا اور دوررس نتائج رکھنے والا تغیر و تبدل ہوگا۔ اس تبدیلی کے امر کے دوران عالمی سطح پر کئی سنگین مسائل اور جنگی تنازعات بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ایئر مارشل (ر)فاروق حبیب نے پاک بھارت تناظر میں فضائی طاقت کے استعمال پر بات کرتے ہوئے اس بات پرروشنی ڈالی کہ پاکستانی اور بھارتی مملکتوں کے جوہری قوت بن جانے کے باعث مکمل یا محدود پیمانے پرروایتی جنگ کے امکانات تقریبا ختم ہوگئے ہیں۔

یہاں تک کہ بھارتی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن بھی پاکستانی روایتی اور جوہری ڈٹیرنس کے باعث بیکار ہو گئی ہے۔ نتیجتاً بھارت نے مخلوط (ہائیبرڈ) طرِز جنگ کا راستہ اختیارکر لیا ہے۔ داخلی طور پر سیاسی پذیرائی حاصل کرنے کے لیے بھارت دوبارہ 2019 کی طرز پر اقدامات کرسکتا ہے لیکن ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے پاک فضائیہ ہمہ وقت تیار ہے۔اپنے اختتامی کلمات میں ائیر مارشل (ر)فرحت نے مقررین اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور اس پہلو پر روشنی ڈالی کہ باقی حربی قوتوں کے مقابلہ میں فضائی قوت میں تیز رفتار جدت دیکھنے میں آئی ہے۔

اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجیز نے ہوا بازوں اور منصوبہ سازوں کو زیادہ دورانیئے کی فضائی پروازوں، صورتحال سے بہتر آگہی کے نظام اور محدود وسائل کے ساتھ جنگی افادیت بڑھانے کی استعداد بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔ انہوں نے سفارش کی کہ پاکستان کو خود انحصاری کا راستہ اپناتے ہوئے علمی تربیت، تحقیق و ترقی اور اپنی ٹیکنالوجیز بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔سینئر حاضر سروس اور ریٹائرڈ ایئر فورس افسران کے علاوہ 1965 اور 1971 کے غازی افسران نے بھی سیمینار میں شرکت کی اور سوال و جواب کے دور میں بھر پور حصہ لیا ۔