سیدہ عفرا بخاری کی یاد میں خصوصی نشست
صاحب ِطرزافسانہ نگار، سیدہ عفرا ؔبخاری کی یاد میں، ان کی شخصیت بطور افسانہ نگار اور قریبا 70 برس پر محیط ان کے تخلیقی سفر اور اردو افسانے پر ان کے گہرے اثرات کے تناظر میں، حلقہ اربابِ ذوق نےایک خصوصی نشست کا انعقاد کیا
عمر جمشید جمعرات 29 ستمبر 2022 13:24
(جاری ہے)
سیدہ عفرؔا بخاری کے 5 افسانوی مجموعے، "فاصلے (1964)"، "نجات (1998)"، "ریت میں پاؤں (2003)" ۔ "آنکھ اور اندھیرا(2009)" اور "سنگ سیاہ (2021)" شائع ہو چکے ہیں۔ جنوری 2022ء میں اپنے انتقال کے وقت، وہ ایک ناول بعنوان "پہچان" پر بھی کام کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے او ہنریؔ، چیخوفؔ اور ایس لی ؔبین کی چند کہانیوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔اپنے پبلشنگ ہاؤسکے تحت انہوں نے بہت سی قابل قدر کتب شائع کیں جن میں، پابلو نروداؔ کی میموئرز کا اردو ترجمہ" یادیں"، میری کورؔیلی کا "تھیلمہ"، مارگریؔٹ مچل کے شہرہ آفاق ناول"گون ود دی ونڈ" کا اردو ترجمہ بعنوان "باد حوادث"، کرشن چندر کی "کشمیر کی کہانیاں" وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنا آخری افسانہ "اُس کی دنیا" ستمبر 2021ء میں تحریر کیا۔
مذکورہ پروگرام میں، ڈاکٹر ناصر بلوچ، پروفیسر امجد علی شاکر، فیاض ظفر، ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر سہیل ممتاز، شیراز حسن، فیصل اقبال، ڈاکٹر محمد عباس اور عبدالوحید نے، عفرا بخاری کے فن پر مضامین پیش کیے۔وقت کی قلت کے باعث، نعیم بیگ، ڈاکٹر ظہیر عباس اور شازیہ مفتی کے مضامین نہ پڑھے جاسکے۔اظہارِ خیال کرنے والوں میں در نجف زیبی، ادریس بابر، شازیہ مفتی، جاوید آفتاب ،علی عثمان باجوہ، ابوذر مادھو، رضا نعیم اور عفراؔ بخاری کے صاحبزادے عامر فراز شامل تھے۔ آفتاب جاوید نے، عفرا ؔبخاری کے حوالہ سے لکھی گئی نظم پیش کی۔اس کے علاوہعفرا بخاری کے فن اور شخصیت کے حوالہ سے نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک استاد محمد ناظم کی تیار کردہ ویڈیو ڈاکومنٹری بھی دکھائی گئی۔
معروف افسانہ نگار، شاعر اور محقق ڈاکٹر ناصر بلوچ نے عفرا بخاری کے افسانوی مجموعہ "نجات "پراپنے مضمون میں انہیں ایک ایسا سفاک حقیقت نگار قرار دیاجو تخلیقی سطح پر کبھی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
ناول اور افسانہ نگار جناب فیاض ظفر نے اپنے مضمون "بے چہرہ لوگ اور عفرا بخاری " میں کہا کہ ان کے افسانوں میں ادیبانہ بالیدگی اور پختگی، ادائیگی کے زعم کے رویہ کے بغیر ، رواں مائع کی طرح نثری حسن بہاتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "معاشرتی درد کا عکس انسانی رویوں سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کا پرتو فرد کی داخلی کہکشاؤں کے سفیدو سیاہ ،عمیق غاروں پر منتج ہوتا ہے۔ ذات کے سفید و سیاہ غاروں کا اضطراب برداشت کرنا ، ان کو سمجھنا اور پھر انہیں سادہ اور پر اثر انداز میں ستاروں کی طرح نثری آفاق پر یو ں پھیلا دینا کہ انہیں دیکھنے والا، حیات و موت کے تضادات کو بھول کر ان ستاروں کی جگمگاہٹ میں کھو جاتا ہے۔ اس تشریح کا منہ بولتا ثبوت عفرا بخاری کا افسانہ، "بے چہرہ لوگ" ہے"۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ،لاہور کے شعبہ اردو کی چیئر پرسن اور افسانہ نگار ڈاکٹر صائمہ ارم نے"بڑھاپا، سماج اور عفرا بخاری کا افسانہ" کے عنوان سے مضمون پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا، "جنوری 2022ء میں دنیا کو الوداع کہنے والی عفرا بخاری کا تعلق پاکستانی افسانہ نگاروں کی اس نسل سے ہے جو تقسیم سے پہلے پیدا ہوئی اور جس نے افسانے کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ تو بنایا، لیکن روایت اور تہذیب کی گمبھیرتا کو کبھی بوجھ نہیں سمجھا، بلکہ ایک مقدس امانت کی طرح اس کی حفاظت کی۔ یہ نسل نعرے بازی پر یقین رکھتی تھی، نہ ادبی دھڑے بندیوں میں۔ یہ نسل حقیقت پسند تھی اور سچ بولنے کا حوصلہ رکھتی تھی اور بولتی بھی تھی البتہ اس سچ کو شور بنانے سے گریز کرتی تھی۔ عفرا بخاری کی کہانیاں ایسی ہی ہیں۔۔۔ سیدھی سادی مگر جاندار، کہیں کہیں علامت اور ایہام، کہیں تجرید مگر نہ ایسی کہ بوجھل ہو رہے۔بیان کا بہاؤ ایسا کہ شروع کرو تو پڑھے بغیر رکھ نہ سکو، اثر ایسا کہ ہفتے بیت جائیں کہانی شعور سے کھلواڑ کرتی رہے۔ ہر قرات معنی کی ایک نئی سطح کھولے۔ ہر کردار اپنی ذات کا عکس محسوس ہو۔ ہر انجام ایک نئے آغاز کا پیش خیمہ لگے۔"
افسانہ نگار اور نقاد، جناب فیصل اقبال نے اپنےمضمون بعنوان "عفرا بخاری: ایک باکمال حقیقت نگار" کی تمہید باندھتے ہوئے کہا کہ ان کی دانست میں عفرا بخاری عمدہ افسانوی مواد کی روح، زرخیر تخیل کے گوشت پوست اور فنکارانہ ہنر مندی کی تجسیم کے ساتھ یہیں کہیں ہمارے ساتھ ہی موجود ہیں۔۔۔ اپنی کہانیوں میں سانس لیتیں، اپنے مکاملوں کے ذریعہ باتیں کرتیں، اپنے تخلیقی تخیل سے دیکھتیں، اپنی فنی پہلوداری میں مسکراتیں اور اپنے جز رس مشاہدے سے متوجہ کرتیں، ہمارے آس پاس ہی کہیں فنکارانہ وقار سے بیٹھیں، اپنے مداحوں کا یہ اجتماع دیکھ رہی ہیں۔ جناب فیصل اقبال نے عفرا بخاری کے افسانوی مجموعوں، "ریت میں پاؤں " اور "آنکھ اور اندھیرا" پر لکھے اپنے تفصیلی مضمون میں ان کے افسانہ "اندھیرے کا سفر"کے حوالہ سے کہا کہاردو ادب میں اس موضوع پر لکھا گیا کوئی افسانہ ان کی نگاہ سے نہیں گزرا۔
افسانہ نگار، نقاد اور اردو ادب کے استاد ، ڈاکٹر محمد عباس نےعفرا بخاری کے افسانوی مجموعہ "نجات" پر اپنے تحریر کردہ مضمون میں کہا کہ ان کے افسانے ایک کلاسیکی رچاؤ رکھتے ہیں۔ "نجات" میں شامل بیشتر افسانے عورتوں کی نفسیات کے گرد گھومتے ہیں۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ ان کے ہاں کردار دوہراؤ کا شکار نہیں ہوتے۔ ہر افسانے میں ایک نیا اور پہلے سے بڑھ کر منفرد کردار پیش کیا جاتا ہے۔ ان کرداروں کی معروضیت بتاتی ہے کہ فنکار کو انسانوں کے ساتھ غیر مشروط محبت ہے۔ عفرا بخاری کے کردار اپنے باطن کی دنیا ہمارے سامنے رکھتے ہیں اور اس دنیا کے رنگ خالص محبت سے تشکیل پاتے ہیں۔
افسانہ نگار، نقاد اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے سابق سیکرٹری، جناب عبدالوحیؔدنے اپنا مضمون بعنوان "عفرا بخاؔری اور رشتوں کے فاصلے" پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عفرا بخؔاری کے افسانوں کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے موضوعاتی سطح پر خود کو جس میدان میں ٹھیک سمجھا، اپنی سوچ اور فن کے گھوڑے بھی اسی میدان میں دوڑائے اور اسی دائرے میں رہ کر انسانی رشتوں اور ان سے جڑی نفسیات کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ دریافت کیا اور ان لوگوں کی زندگی کا راستہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ہمیں دکھایا، جن کے لیے زندگی حقیقی معنوں میں بہت ہی کٹھن ہوتی ہے، لیکن وہ آخری دم تک زندگی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔
شاعر، نقاد اور مترجم جناب ادریس ؔبابر نے، عفرابخاؔری کے جن افسانوں کا انگریزی زباں میں ترجمہ کیا ہے، ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ افسانے آج سے ساٹھ برس پہلے شائع ہوئے لیکن ان کی منظر نگاری آج کے دور کی عکاس نظر آتی ہے اور انہیں کسی بھی عالمی افسانوی انتخاب میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "بے شک انہوں نے اپنے بہت سے افسانوں میں عورتوں کے مسائل کا بیان کیا ہے، لیکن میرے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے اور جس وجہ سے ان کے افسانے عصرِحاضر سے متعلق اور ترجمہ کے قابل بن جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ کوئی ردھم توڑے بغیر ، کوئی پرچار کیے بغیر، بعض اوقات صرف ماحول کے استعمال سے، ایک اچھے شعر کی طرح، سادگی اور پُرکاری لیے، ایک عمومی سطح سے کہیں اوپر اٹھ جاتی ہیں "۔
نقاد اور مترجم ، جناب رضا نعیم نے عفرا بخؔاری کے افسانہ "میان پترو" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہجرت کے حوالہ سے لکھے گئے افسانوں کا اگر کوئی عالمی انتخاب کیا جائے تو بلا شبہ یہ افسانہ اس میں جگہ پائے گا۔ اس افسانے میں جو آشوب بیان کیا گیا ہے وہ کرداروں تک محدود نہیں رہتا بلکہ قاری کا آشوب بھی بن جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور یہی اس افسانے کا بنیادی موضوع ہے۔
افسانہ نگار، محترمہ شازیہ ؔمفتی نے کہا کہ وہ، عفرا بخاری کی کہانیاں چھپ چھپ کر پڑھتی رہیں اور انہوں نے ان کہانیوں سے بہت کچھ سیکھا۔
افسانہ نگار، براڈکاسٹر اور اردو ادب کے استاد، علی عثمان ؔباجوہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ایم فل میں عفرا بخاری اور نوبیل انعام یافتہ کینیڈئین افسانہ نگار، ایلسؔ منرو کے افسانوں کے تقابلی جائزہ کے موضوع پر مقالہ لکھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں خواتین کے افسانوں میں موضوعاتی اور تخلیقی سطح پر بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عفرا بخاری عام انسانوں پر کہانی لکھ کر انہیں خاص بنا دیتی ہیں اور ان کے افسانوں کو پڑھ کر لکھنے کا فن سیکھا جاسکتا ہے۔
نوجوان شاعر و افسانہ نگار چاند شکیل کا کہنا تھا کہ میں نے محترمہ عفرا بخاری سے زندگی جینے کا ڈھنگ سیکھا۔ اُن کی کہانیاں پڑھ کے مجھے احساس ہوا جن رشتوں کو ہم بہت مقدس سمجھتے ہیں اصل میں وہی رشتے بعد میں آپ کی جان کے دشمن بھی بن جاتے ہیں۔
شاعر، اداکار اور استاد جناب ابوذر مادھو نے کہا کہ عفرا بخاری نے اپنے افسانوں کے ذریعہ جس طرح زندگی گزارنے کے گر سکھائے وہ ان لئے ایک بہت خاص تجربہ تھا اور اس تجربے نے ان کی زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔
درنجف زیبی، علی عثمان باجوہ اور ابوذر مادھو نے، عفرا بخاری کے ساتھ گذارے ہوئے وقت کو یاد کیا اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔
پروگرام کے آخر میں افسانہ نگار، حلقہ ارباب ذوق کے سابق سیکرٹری اور عفرا بخاری کے صاحبزادے ، عامر فراز نے عفرا بخاری کے فن اور شخصیت پر مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ان کے پہلے افسانوی مجموعہ پر پہلا مضمون 1964ء میں جناب خلیق احمد خلیق نے لکھا اور آج تقریبا ساٹھ برس بعد اس کتاب پر دو نوجوان نقادوں نے مضامین پیش کیے اور یوں وہ سمجھتے ہیں کہ عفرا بخاری کو ان کے ہم عصروں کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کے باوجود ان کا فن ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری نسل تک منتقل ہوچکا ہے اور وہ اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
صاحبانِ ذوق کی ایک کثیر تعداد نے اجلاس میں شرکت کی۔
متعلقہ عنوان :
مزید مقامی خبریں
-
ضمنی انتخابات میں کامیابی گجرات کے عوام کی چوہدری شجاعت حسین سے والہانہ محبت اور اعتماد کا عملی ثبوت ہے۔ خواجہ رمیض حسن
-
صوبائی محتسب پنجاب کی ہدایت پر مختلف صوبائی محکموں نے 13درخواست گزار افراد کے زیر التواء 1کروڑ 36لاکھ سے زائد کے واجبات ادا کر دیئے
-
روٹی کی قیمت میں کمی کے احکامات کو پوری طرح نافذ کروائیں گے تندور مالکان قیمت اور وزن کا خیال رکھیں ورنہ سخت قانونی کاروائی کیلئے تیار رہیں ڈی سی جہلم کی مختلف تندور وں کی چیکنگ کے دوران وارننگ
-
پنجاب بھر میں صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کیلئے اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں، سیکرٹری صحت پنجاب علی جان خان
-
نانبائی ایسوسی ایشن کو سرکاری ریٹ پر روٹی نان کی فروخت یقینی بنانا ہو گا، عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہم سب کی زمہ داری ہے، ڈپٹی کمشنر جہلم
-
عید الفطر کے بعد بھی پرائس کنٹرول کا کام تیزی سے جاری رکھا جائے تاکہ عوام کو خود ساختہ مہنگائی سے بچایا جا سکے ، ڈپٹی کمشنر جہلم
-
بلوچستان پاکستان کا مستقبل اور گوادر معیشت کے سفر میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ خواجہ رمیض حسن
-
HBK کے تعاون سے پشاور پریس کلب رمضان سپورٹس گالا اختتام پزیر
-
پاکستان میں مذہبی انتشار اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ خواجہ رمیض حسن
-
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والی مسیحی برادری کو ایسٹر کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔خواجہ رمیض حسن
-
ضلع جہلم میں نئے ترقیاتی منصوبوں پر جامع رپورٹ پنجاب حکومت کو منظوری کے لیے بھیجی جائے گی جس میں عوامی فلاح کے ہر منصوبہ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ڈی سی جہلم
-
کالا باغ ڈیم کی تعمیر سستی اور بھرپور بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوئے کامیاب ترین منصوبہ ثابت ہوگا۔ رہنما مسلم لیگ ق
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.