سیدہ عفرا بخاری کی یاد میں خصوصی نشست

صاحب ِطرزافسانہ نگار، سیدہ عفرا ؔبخاری کی یاد میں، ان کی شخصیت بطور افسانہ نگار اور قریبا 70 برس پر محیط ان کے تخلیقی سفر اور اردو افسانے پر ان کے گہرے اثرات کے تناظر میں، حلقہ اربابِ ذوق نےایک خصوصی نشست کا انعقاد کیا

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعرات 29 ستمبر 2022 13:24

سیدہ عفرا بخاری کی یاد میں خصوصی نشست
رپورٹ:چاند شکیل
صاحب ِطرزافسانہ نگار، سیدہ عفرا ؔبخاری کی یاد میں، ان کی شخصیت بطور افسانہ نگار اور قریبا 70 برس پر محیط ان کے تخلیقی سفر اور اردو افسانے پر ان کے گہرے اثرات کے تناظر میں، حلقہ اربابِ ذوق نےایک خصوصی نشست کا انعقاد کیا۔ جلسہ کی صدارت صاحبِ اسلوب افسانہ نگار اور مترجم جناب خالدفتح محمد نے کی، جبکہ معروف شاعر اور نقاد ڈاکٹر سعادت ؔسعید ، مہمانِ خصوصی تھے ۔

ابتداَ سیکرٹری حلقہ  فرح ؔرضوی نے کہا کہ ، اس اجلاس کے اہتمام کا خصوصی محرک عفرا ؔبخاری کا وہ غیر معمولی تخلیقی تسلسل ہے جو فقط سات دہائیوں کا زمانی احاطہ ہی نہیں کرتا بلکہ فنی پختگی اور شعوری سطح کے ارتفاع کے بل پر اپنے عہد کا نمائندہ اور عکاس قرار پانے کی اہلیت بھی رکھتا ہے، جس کا لائقَ صد تحسین نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس سفر کا آغاز 1952ء میں بچوں کے لیے لکھی کہانیوں کی اشاعت سے ہوا، اور یہ سفر فقط ایک وقفے کی ساتھ 2021ء میں "سنگِ سیاہ" کی اشاعت تک جاری رہا۔

(جاری ہے)

ان کے انتقال کے بعد ان کا چھٹا افسانوی مجموعہ "اس کی زندگی " کے عنوان سے زیر طبع ہے۔

سیدہ عفرا ؔبخاری 14 مارچ  ، 1938ء کوامرتسر میں پیدا ہوئیں۔ اگست 1947ء میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور چلی آئیں۔ 1953ء میں انہوں نے سینکڈری اسکول کا امتحان، گونمنٹ گرلز ہائی اسکول، چونا منڈی سے پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج برائے خواتین، کوپر روڈ سے بی اے کیا۔

ان کی پہلی کہانی، "کس کی تصویر" بچوں کے رسالہ"ننھا منا" میں شائع ہوئی۔ انہوں نے افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز 1959ء میں، "لیل و نہار" کے لیے "دوراہا" لکھ کر کیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے متفرق موضوعات پر مضامین بھی تحریر کیے جو روزنامہ امروز ، اور استقلال میں شائع ہوتے رہے۔ 1979ء تک عفرا بخاری نے تسلسل سے لکھا اور ان کے افسانے ،"ادبِ لطیف"، "سویرا"، "داستان گو"، "افکار"، "ماہِ نو(کراچی)"، "نقوش"، "فنون"، "سیپ" جیسے موقر ادبی جرائد کے ساتھ ساتھ دیگر معیاری پرچوں مثلا، سیارہ ڈائجسٹ، زیب النساء، تہذیب اور چلمن میں بھی شائع ہوتے رہے۔

1978ء میں اپنے شوہر کے انتقال کے بعد انہیں جائیداد اور گارڈئین شپ سے متعلق ایک صبر آزما، عدالتی جنگ کا سامنا کرنا پڑا، اور یوں گھریلو ذمہ داریوں کے پیش نظر وہ ایک لمبے عرصہ تک ادبی منظرنامے سے اوجھل رہیں۔  بچوں کی تعلیم اور دیگر معاملات سے سرخرو ہونے کے بعد ، ٍ1992ء میں انہوں نے ایک پرنٹنگ پریس اور اشاعتی ادارے کا آغاز کیا اور تقریبا، 15 برس کے وقفے کے بعد۔

1992ء ہی میں دوبارہ  افسانہ نگاری شروع کی اور بہت سے شاہکار افسانے تخلیق کیے۔
سیدہ عفرؔا بخاری کے 5 افسانوی مجموعے، "فاصلے (1964)"، "نجات (1998)"، "ریت میں پاؤں (2003)" ۔ "آنکھ اور اندھیرا(2009)" اور "سنگ سیاہ (2021)" شائع ہو چکے ہیں۔ جنوری 2022ء میں اپنے انتقال  کے وقت، وہ ایک ناول بعنوان "پہچان" پر بھی کام کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے او ہنریؔ، چیخوفؔ اور ایس لی ؔبین کی چند کہانیوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔

اپنے  پبلشنگ ہاؤسکے تحت انہوں نے بہت سی قابل قدر کتب شائع کیں جن میں، پابلو نروداؔ کی میموئرز کا اردو ترجمہ" یادیں"، میری کورؔیلی کا "تھیلمہ"، مارگریؔٹ مچل کے شہرہ آفاق ناول"گون ود دی ونڈ" کا اردو ترجمہ بعنوان "باد حوادث"، کرشن چندر کی "کشمیر کی کہانیاں" وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنا آخری افسانہ "اُس کی دنیا" ستمبر 2021ء میں تحریر کیا۔


مذکورہ پروگرام میں، ڈاکٹر ناصر بلوچ، پروفیسر امجد علی شاکر، فیاض ظفر، ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر سہیل ممتاز، شیراز حسن، فیصل اقبال، ڈاکٹر محمد عباس اور عبدالوحید نے، عفرا بخاری کے فن پر مضامین پیش کیے۔وقت کی قلت کے باعث، نعیم بیگ، ڈاکٹر ظہیر عباس اور شازیہ مفتی کے مضامین نہ پڑھے جاسکے۔اظہارِ خیال کرنے والوں میں در نجف زیبی، ادریس بابر، شازیہ مفتی، جاوید آفتاب ،علی عثمان باجوہ، ابوذر مادھو، رضا نعیم اور عفراؔ بخاری کے صاحبزادے عامر فراز شامل تھے۔

آفتاب جاوید نے، عفرا ؔبخاری کے حوالہ سے لکھی گئی نظم پیش کی۔اس کے علاوہعفرا بخاری کے فن اور شخصیت کے حوالہ سے نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک استاد محمد ناظم کی تیار کردہ  ویڈیو ڈاکومنٹری بھی دکھائی گئی۔
صاحب صدارت، جناب خالد فتح محمد  نے کہا کہ عفرا بخاری کی ہم عصر خواتین افسانہ نگاروں کی اکثریت ، ماضی پرستی کی طرف مائل تھی  جن میں قرۃ العین حیدر بھی شامل ہیں۔

عفرا بخاری ماضی میں جھانکتی ضرور تھیں، اس لیے کہ اس کے بغیر فکشن تخلیق نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان کے ہاں ماضی پرستی نہیں تھی۔ ان کے افسانوں میں گھن گرج نظر نہیں آتی۔ انہوں نے عام کرداروں پر لکھا جو ایک بہت مشکل کام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ راجندر سنگھ بیدی کو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار مانتے ہیں اور انہیں عفرا بخاری صاحبہ بھی بعض افسانوں میں بیدی کے مقام پر نظر آتی ہیں۔

گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے، جناب خالد فتح محمد نے کہا کہ ، عفرا بخاری نے تقریبا ساٹھ برس ادب تخلیق کیالیکنافسوس کی بات ہے کہ الطاف ؔفاطمہ کی طرح، عفراؔبخاری کو بھی نظر انداز کیا گیا، اور یہ ہم سب کے لیے، ہمارے تمام اداروں کے لیے ایک افسوس کا مقام ہے۔

معروف شاعر، نقاد اور معلم  ڈاکٹر سعادت ؔسعید نےکہا کہ 1963ء میں اپنے ادبی سفر کے آغاز میں انہیں "سویرا" میں عفرابخاری، خالدہ حسین اور عبداللہ حسین کے افسانے پڑھنے کا موقع ملا، اور یوں ان کی ادبی تربیت میں ان کا بڑا حصہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "عفرا بخاری ایک تفصیل کا نام نہیں ہے کہ انہوں نے معاشرے کا، یا خاندان کا یا عورتوں کے مسائل کا عکس پیش کردیا۔ ان کے فن کا بنیادی جوہر، اگر نظریاتی حوالہ سے بیان کیا جائے،  یہ ہے کہ عورت نے ایک چوتھا پہاڑ بھی ہٹانا ہے۔ اگر مرد افسانہ نگار اور ترقی پسند افسانہ نگار تین پہاڑوں کی بات کرتے ہیں اور عورت کو بہت کم سامنے لے کر آتے ہیں تو خود عورتوں نے اپنے مسائل کے حوالہ سے بات کی ہے۔

یہ چوتھا پہاڑ مرد کا ہے اور مرد کا یہ پہاڑ میں نے بہت بڑے لبر ل معاشروں میں بھی دیکھا ہے کہ وہ کس طرح سے جبر کرتا ہے۔ عفرا ؔبخاری نے پاکستان میں رہ کر جس عورت کا اور جس ماحول کا مطالعہ کیا ہے، اس ماحول کے اندر سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ اسے تبدیل ہونا چاہیئے۔ انہوں نے براہ راست انقلاب کا نعرہ  نہیں لگایا لیکن جس صورت حال کو بیان کیا ہے وہ آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔


معروف افسانہ نگار، شاعر اور محقق ڈاکٹر ناصر بلوچ نے عفرا بخاری کے افسانوی مجموعہ "نجات "پراپنے مضمون میں انہیں ایک ایسا سفاک حقیقت نگار قرار دیاجو تخلیقی سطح پر کبھی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
ناول اور افسانہ نگار جناب فیاض ظفر نے اپنے مضمون "بے چہرہ لوگ اور  عفرا بخاری " میں کہا کہ ان کے افسانوں میں ادیبانہ بالیدگی اور پختگی، ادائیگی کے زعم  کے  رویہ کے بغیر ، رواں مائع کی طرح نثری حسن بہاتی نظر آتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "معاشرتی درد کا عکس انسانی رویوں سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کا پرتو فرد کی داخلی کہکشاؤں کے سفیدو سیاہ ،عمیق غاروں پر منتج ہوتا ہے۔ ذات کے سفید و سیاہ غاروں کا اضطراب برداشت کرنا ، ان کو سمجھنا اور پھر انہیں سادہ اور پر اثر انداز میں ستاروں کی طرح نثری آفاق پر یو ں پھیلا دینا کہ انہیں دیکھنے والا، حیات و موت کے تضادات کو بھول کر ان ستاروں کی جگمگاہٹ میں کھو جاتا ہے۔

اس تشریح کا منہ بولتا ثبوت عفرا بخاری کا افسانہ، "بے چہرہ لوگ" ہے"۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ،لاہور کے شعبہ اردو کی چیئر پرسن اور افسانہ نگار ڈاکٹر صائمہ ارم نے"بڑھاپا، سماج اور عفرا بخاری کا افسانہ" کے عنوان سے مضمون پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا، "جنوری 2022ء میں دنیا کو الوداع کہنے والی عفرا بخاری کا تعلق پاکستانی افسانہ نگاروں کی اس نسل سے ہے جو تقسیم سے پہلے پیدا ہوئی اور جس نے افسانے کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ تو بنایا، لیکن روایت اور تہذیب کی گمبھیرتا کو کبھی بوجھ نہیں سمجھا، بلکہ ایک مقدس امانت کی طرح اس کی حفاظت کی۔

یہ نسل نعرے بازی پر یقین رکھتی تھی، نہ ادبی دھڑے بندیوں میں۔ یہ نسل حقیقت پسند تھی اور سچ بولنے کا حوصلہ رکھتی تھی اور بولتی بھی تھی البتہ اس سچ کو شور بنانے سے گریز کرتی تھی۔ عفرا بخاری کی کہانیاں ایسی ہی ہیں۔۔۔ سیدھی سادی مگر جاندار، کہیں کہیں علامت اور ایہام، کہیں تجرید  مگر نہ ایسی کہ بوجھل ہو رہے۔بیان کا بہاؤ ایسا کہ شروع کرو تو پڑھے بغیر رکھ نہ سکو، اثر ایسا کہ ہفتے بیت جائیں کہانی شعور سے کھلواڑ کرتی رہے۔

ہر قرات معنی کی ایک نئی سطح کھولے۔ ہر کردار اپنی ذات کا عکس محسوس ہو۔ ہر انجام ایک نئے آغاز کا پیش خیمہ لگے۔"
افسانہ نگار، نقاد اور صدر شعبہ اردو، گورنمنٹ دیال سنگھ کالج، لاہور ڈاکٹر سہیل ممتاز خان نے اپنے مضمون "عفرا بخاری  کے فاصلے"میں کہا، "عفرا بخاری کے فن کی بڑی شناخت ان کا وہ درد مند بیانیہ ہے، جو ہمارے سماج کے کمزور طبقے کے لیے اس قدر رواں ہے کہ مشکل سے مشکل صورتحال یا وقوع کی صراحت ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔

یہ ایک سچے قلمکار کا بیانیہ ہے جو ان کی  کہانیوں میں کامل تاثریت کے ساتھ پیش ہوا۔ درد کا ایسا بہاؤ، جو رکنے میں نہیں آرہا۔ کئی ہزار دکھ ہیں جو مسلسل زندہ ہیں اور کہانیا ں ان سے نبرد آزما ہیں۔"

صحافی اور شاعر، جناب شیراز حسن نے اپنے مضمون میں کہا،"عفرا بخاری کے افسانوں میں ایک دیومالائی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔

ان کے افسانوں میں شوخ رنگ نہیں بلکہ وہ سنگ سیاہ ہے، جو اس سماج کے ہر فرد پر لاد دیا گیا ہے۔ وہ لفظوں کا ایک ایسا دائرہ تخلیق کرنے کا ہنر رکھتی ہیں، کہ قاری کو معاشرے کا وہ عکس دکھائی دینے لگتا ہے جس میں ظلم ،جبر ،استحصال اور پدر شاہی نظام کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے افسانہ نگاری کا آغاز کیا تو انہیں باغی افسانہ نگار کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔

امرتسر کی گلیوں میں گھومتی پھرتی، نٹ کھٹ سی اس شرارتی لڑکی کی وقت اور حالات نے ایسی پرورش کی کہ وہ اردو ادب میں ایک ایسا تناور درخت ثابت ہوئی جس نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی تند و تیز طوفانوں کا سامنا کیا اور افسانہ نگاری میں بھی ایک ایسی آواز بنی جس کی گونج تا دیر سنائی دیتی رہے گی"۔
افسانہ نگار اور نقاد، جناب فیصل اقبال نے اپنےمضمون بعنوان  "عفرا بخاری: ایک باکمال حقیقت نگار"  کی تمہید باندھتے ہوئے کہا کہ ان کی دانست میں عفرا بخاری عمدہ افسانوی مواد کی روح، زرخیر تخیل کے گوشت پوست اور فنکارانہ ہنر مندی کی تجسیم کے ساتھ یہیں کہیں ہمارے ساتھ ہی موجود ہیں۔

۔۔ اپنی کہانیوں میں سانس لیتیں، اپنے مکاملوں کے ذریعہ باتیں کرتیں، اپنے تخلیقی تخیل سے دیکھتیں، اپنی فنی پہلوداری میں مسکراتیں اور اپنے جز رس مشاہدے سے متوجہ کرتیں، ہمارے آس پاس ہی کہیں فنکارانہ وقار سے بیٹھیں، اپنے مداحوں کا یہ اجتماع دیکھ رہی ہیں۔ جناب فیصل اقبال نے عفرا بخاری کے افسانوی مجموعوں، "ریت میں پاؤں " اور "آنکھ اور اندھیرا" پر لکھے اپنے تفصیلی مضمون میں ان کے افسانہ "اندھیرے کا سفر"کے حوالہ سے کہا کہاردو ادب میں اس موضوع پر لکھا گیا کوئی افسانہ ان کی نگاہ سے نہیں گزرا۔


افسانہ نگار، نقاد اور اردو ادب کے استاد  ، ڈاکٹر محمد عباس نےعفرا بخاری کے افسانوی مجموعہ "نجات" پر اپنے تحریر کردہ مضمون میں کہا کہ ان کے افسانے ایک کلاسیکی رچاؤ رکھتے ہیں۔ "نجات" میں شامل بیشتر افسانے عورتوں کی نفسیات کے گرد گھومتے ہیں۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ ان کے ہاں کردار دوہراؤ کا شکار نہیں ہوتے۔ ہر افسانے میں ایک نیا اور پہلے سے بڑھ کر منفرد کردار پیش کیا جاتا ہے۔

ان کرداروں کی معروضیت بتاتی ہے کہ فنکار کو انسانوں کے ساتھ غیر مشروط محبت ہے۔ عفرا بخاری کے کردار اپنے باطن کی دنیا ہمارے سامنے رکھتے ہیں اور اس دنیا کے رنگ خالص محبت سے تشکیل پاتے ہیں۔
افسانہ نگار، نقاد اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے سابق سیکرٹری، جناب عبدالوحیؔدنے اپنا مضمون بعنوان "عفرا بخاؔری اور رشتوں کے فاصلے" پیش کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عفرا بخؔاری کے افسانوں کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے موضوعاتی سطح پر خود کو جس میدان میں ٹھیک سمجھا، اپنی سوچ اور فن کے گھوڑے بھی اسی میدان میں دوڑائے اور اسی دائرے میں رہ کر انسانی رشتوں اور ان سے جڑی نفسیات کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ دریافت کیا اور ان لوگوں کی زندگی کا راستہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ہمیں دکھایا، جن کے لیے زندگی حقیقی معنوں میں بہت ہی کٹھن ہوتی ہے، لیکن وہ آخری دم تک زندگی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔


شاعر، نقاد اور مترجم جناب ادریس ؔبابر نے، عفرابخاؔری کے جن افسانوں کا انگریزی زباں میں ترجمہ کیا ہے، ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ افسانے آج سے ساٹھ برس پہلے شائع ہوئے لیکن ان کی منظر نگاری آج کے دور کی عکاس نظر آتی ہے اور انہیں کسی بھی عالمی افسانوی انتخاب میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "بے شک انہوں نے اپنے بہت سے افسانوں میں عورتوں کے مسائل کا بیان کیا ہے، لیکن میرے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے اور جس وجہ سے ان کے افسانے عصرِحاضر سے متعلق اور ترجمہ کے قابل بن جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ کوئی ردھم توڑے بغیر ، کوئی پرچار کیے بغیر، بعض اوقات صرف ماحول کے استعمال سے، ایک اچھے شعر کی طرح، سادگی اور پُرکاری لیے، ایک عمومی سطح سے کہیں اوپر اٹھ جاتی ہیں "۔


نقاد اور مترجم ، جناب رضا نعیم نے عفرا بخؔاری کے افسانہ "میان پترو" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہجرت کے حوالہ سے لکھے گئے افسانوں کا اگر کوئی عالمی انتخاب کیا جائے تو  بلا شبہ یہ افسانہ اس میں جگہ پائے گا۔ اس افسانے میں جو آشوب بیان کیا گیا ہے وہ کرداروں تک محدود نہیں رہتا بلکہ قاری کا آشوب بھی بن جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور یہی اس افسانے کا بنیادی موضوع ہے۔


افسانہ نگار، محترمہ شازیہ ؔمفتی نے کہا کہ وہ، عفرا بخاری کی کہانیاں چھپ چھپ کر پڑھتی رہیں اور انہوں نے ان کہانیوں سے بہت کچھ سیکھا۔
افسانہ نگار، براڈکاسٹر اور اردو ادب کے استاد، علی عثمان ؔباجوہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ایم فل میں عفرا بخاری اور نوبیل انعام یافتہ کینیڈئین افسانہ نگار، ایلسؔ منرو کے افسانوں کے تقابلی جائزہ کے موضوع پر مقالہ لکھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں خواتین کے افسانوں میں موضوعاتی اور تخلیقی سطح پر بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عفرا بخاری عام انسانوں پر کہانی لکھ کر انہیں خاص بنا دیتی ہیں اور ان کے افسانوں کو پڑھ کر لکھنے کا فن سیکھا جاسکتا ہے۔
نوجوان شاعر و افسانہ نگار چاند شکیل کا کہنا تھا کہ میں نے محترمہ عفرا بخاری سے زندگی جینے کا ڈھنگ سیکھا۔ اُن کی کہانیاں پڑھ کے مجھے احساس ہوا جن رشتوں کو ہم بہت مقدس سمجھتے ہیں اصل میں وہی رشتے بعد میں آپ کی جان کے دشمن بھی بن جاتے ہیں۔


شاعر، اداکار اور استاد جناب ابوذر مادھو نے کہا کہ عفرا بخاری نے اپنے افسانوں کے ذریعہ جس طرح زندگی گزارنے کے گر سکھائے وہ ان لئے ایک بہت خاص تجربہ تھا  اور اس تجربے نے ان کی زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔
درنجف زیبی، علی عثمان باجوہ اور ابوذر مادھو نے، عفرا بخاری کے ساتھ گذارے ہوئے وقت کو یاد کیا اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔


پروگرام کے آخر میں افسانہ نگار، حلقہ ارباب ذوق کے سابق سیکرٹری اور عفرا بخاری کے صاحبزادے ، عامر فراز نے عفرا بخاری کے فن اور شخصیت پر مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ان کے پہلے افسانوی مجموعہ پر پہلا مضمون 1964ء میں جناب خلیق احمد خلیق نے لکھا اور آج تقریبا ساٹھ برس بعد اس کتاب پر دو نوجوان نقادوں نے مضامین پیش کیے اور یوں وہ سمجھتے ہیں کہ عفرا بخاری کو ان کے ہم عصروں کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کے باوجود ان کا فن ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری نسل تک منتقل ہوچکا ہے اور وہ اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
صاحبانِ ذوق کی ایک کثیر تعداد نے اجلاس میں شرکت کی۔