عالمی سطح پر بڑھتاافراط زر امن کے لیے خطرناک کیوں ہے؟پاکستان کےغیرضروری ترقیاتی منصوبوں کا بوجھ شہری کس حد تک اٹھاپائیں گے؟

ہم نے 75سالوں میں نہیں سیکھا کہ اقتصادیات کو کیسے درست کرنا ہے کسی بھی ملک میں میٹرویا اورنج لائن جیسے منصوبے ترقی کی علامت نہیں ہوتے بلکہ اس کی مجموعی قومی پیدوار اس کی ترقی کو ظاہر کرتی ہے.ایڈیٹر اردوپوائنٹ میاں محمد ندیم کا تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 29 ستمبر 2022 15:44

عالمی سطح پر بڑھتاافراط زر  امن کے لیے خطرناک کیوں ہے؟پاکستان کےغیرضروری ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 ستمبر ۔2022 ) دنیا میں بڑھتے ہوئے افراط زر سے پاکستان جیسے ترقی پذیرممالک کے ساتھ ساتھ امریکا جیسی عالمی معاشی طاقتیں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں جبکہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن(ڈبلیو ٹی او)خبردار کرچکی ہے کہ دنیا عالمی کساد بازاری کی جانب بڑھ رہی ہے جس کے نتائج تباہ کن ہونگے .

(جاری ہے)

افرط زرسے جہاں دنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے وہیں عام شہریوں کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ بنکنگ سیکٹر پر لوگوں کا اعتماد ختم ہورہا ہے اور وہ اپنی جمع پونجی کو سونے یا مستحکم کرنسیوں میں تبدیل کرواکر رکھ رہے ہیں اسی افراتفری سے بعض منفی ذہنیت رکھنے والے عناصر فائدہ اٹھا کر جعلی ڈیجٹیل کرنسی اور اسٹاکس پر بھاری منافع آفرکرکے انہیں عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم کررہے ہیں.

پاکستان میں سب سے زیادہ پیسے کا ہیر پھیر سال2000کے بعد سے زمینوں کے لین دین میں ہوا جب اچانک ہزاروں روپے ایکٹروالی زمینوں کو لاکھوں روپے اور پھر کروڑوں تک پہنچ گئیں اس سلسلہ میں ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“اور تجزیہ نگار میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ ہم نے 75سالوں میں نہیں سیکھا کہ اقتصادیات کو کیسے درست کرنا ہے کسی بھی ملک میں میٹرویا اورنج لائن جیسے منصوبے ترقی کی علامت نہیں ہوتے بلکہ اس کی مجموعی قومی پیدوار اس کی ترقی کو ظاہر کرتی ہے انہوں نے اورنج لائن لاہور کے منصوبے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 400روپے فی مسافر میں پڑنے والی ٹکٹ 40روپے میں فروخت کرکے 360روپے حکومت ادا کررہی ہے دنیا کا کوئی بھی ماہرمعاشیات اسے اچھا منصوبہ قرارنہیں دے گا اسی طرح نجی پاور ہاﺅسسزکے معاہدوں کا بھی دفاع نہیں کیا جاسکتا کہ جو پاور ہاﺅس بجلی پیدا نہیں بھی کررہے انہیں اخراجات کی مد میں ایک معقول رقم ادا کی جائے گی جو بلوں کے ذریعے صارفین سے وصول کی جاتی ہے .

انہوں نے کہا کہ اس کے مقابلے میں تربیلا اور منگلہ ڈیم جیسے منصوبوں کے ماڈل سامنے رکھیں تو ایسے منصوبوں چنددہائیوں میں نہ صرف اپنی لاگت پوری کردیتے ہیں بلکہ اس کے بعد منافع دینے پر آجاتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہر شعبے میں کرپشن کے سرطان کی وجہ سے ایسے منصوبوں پر توجہ نہیں دی جاتی جو ملکی مفاد میں ہوں بلکہ کک بیکس والے منصوبوں کو ترجیح دی جاتی ہے .

میاں محمد ندیم نے کہا کہ امریکا کی مثال موجود ہے کہ اس نے آزادی کے 180سال کے بعد1956اپنی50میں سے 48ریاستوں کو جوڑنے کے لیے موٹروے بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا (امریکا کی دو ریاستوں ہوائی اور الاسکا کا دیگر ریاستوں سے زمینی رابط نہیں ہے) جبکہ ہم نے بلاضرورت لاہور اسلام آباد موٹروے پر اربوں ڈالر خرچ کردیئے اور اب ہم دوبارہ جی ٹی روڈ کو موٹرے وے میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں حکومت کے اس فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ لاہور اسلام آباد موٹر وے منصوبہ غیرضروری تھا اور اس کے جی ٹی روڈ کے شہروں پر معاشی اثرات بھی مرتب ہوئے اور ہمیں فائدے کی بجائے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا .

انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام ترتی یافتہ ممالک میں ایسے منصوبے اس وقت بنائے گئے جب جو معاشی طور پر مستحکم ہوچکے تھے جبکہ ہم نے تمام منصوبے بھاری شرح سود پر قرض لے کر بنائے تو یہ کسی اعتبار سے عقلمندانہ فیصلے نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی انڈسٹری اور زراعت کو تباہ کیا جو ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھیں. انہوں نے کہا کہ دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں فیکٹریاں یا ملیں لگانے کے لیے لائسنس سسٹم ختم ہوچکا ہے مگر پاکستان میں وہ ابھی تک رائج ہے کیونکہ ہم ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری کو برقراررکھنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی چھوٹا سرمایہ دار چینی بنانے کے لیے چھوٹا کارخانہ لگانا چاہتا ہے تو اس کے لیے لائسنس کی شرط نہیں ہونی چاہیے ہمیں مناپلی کمیشن کو مکمل بااختیار اور طاقتور ادارہ بنانا چاہیے جو تمام معاملات پر نہ صرف نظر رکھے بلکہ ایک ریگولیرٹی اتھارٹی کا بھی کرئے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ چھوٹے بڑے تمام سرمایہ کاروں کو برابرکو مواقع میسرہوں.

میاں ندیم نے کہا یہاں پھر امریکا کی مثال سامنے آئے گی کہ وہاں ایف ڈی اے ”فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمسٹریشن اتھارٹی“ایک مکمل بااختیار ادارہ ہے اور اس کے پاس عدالتی اختیارات ہیں ایف ڈی اے جہاں پر بھی محسوس کرتا ہے کہ یہاں مناپلی قائم ہورہی ہے وہ فوری حرکت میں آتا ہے اور امریکی صدر کو بھی اختیار نہیں کہ وہ ان کے معاملات میں مداخلت کرئے اس لیے کہ ریاستی ادارے مضبوط اور بااختیار ہیں .

انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے افراط زر ‘ عالمی تنازعات اورکورونا کی وبا سے عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے مگر بہت سارے ملکوں نے فوری اقدامات کرکے ڈیمج کنٹرول کیا ہے مگر پاکستانی حکومتیں عالمی اداروں کی امداد اورمزید قرضوں کے حصول میں مصروف رہیں افراط زر کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ایک عام استعمال کی چیز لیں اور اس کی قیمت کا ایک دور سے دوسرے دور سے موازنہ کریں مثال کے طور پر امریکہ میں 1970 میں کافی کے اوسط کپ کی قیمت 25 سینٹ تھی 2019 تک یہ 1.59 ڈالر تک پہنچ گئی تو پانچ ڈالر میں آپ 1970 میں 20 کپ کے مقابلے میں 2019 میں تقریباً تین کپ کافی خریدنے کے قابل رہ جاتے یہ افراط زر ہے جو کسی ایک شے یا سروس کی قیمتوں میں اضافے تک محدود نہیں.

ماہرین کے مطابق ایک صحت مند معیشت میں، سالانہ افراط زر عام طور پر دو فیصد پوائنٹس کی حد میں ہوتی ہے جسے ماہرین اقتصادیات قیمتوں کے استحکام کا اشارہ سمجھتے ہیں افراط زر کے اس وقت مثبت اثرات ہو سکتے ہیں جب یہ ایک حد کے اندر ہو ورنہ یہ اخراجات کو زیادہ کر سکتی ہے اور اس طرح جب معیشت سست ہو رہی ہو اور اسے فروغ دینے کی ضرورت ہو تو اس سے طلب اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے اس کے برعکس جب افراط زر اجرت میں اضافے کو پیچھے چھوڑنا شروع کر دیتی ہے تو یہ جدوجہد کرنے والی معیشت کی انتباہی علامت ہو سکتی ہے.

افراط زر صارفین کو سب سے زیادہ براہ راست متاثر کرتا ہے لیکن کاروبار بھی اس کا اثر محسوس کر سکتے ہیں خاندان یا صارفین اس وقت قوت خرید سے محروم ہو جاتے ہیں جب خوراک اور پٹرول کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں چھوٹی کمپنیاں قوت خرید کھو دیتی ہیں جب پیداوار میں استعمال ہونے والے ان پٹس کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، جیسے کوئلہ اور خام تیل، مصنوعات جیسے آٹا اور سٹیل اور تیار مشینری اس کے جواب میں کمپنیاں عام طور پر افراط زر سے پڑنے والے فرق کو پورا کرنے کے لیے اپنی مصنوعات یا خدمات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہیں یعنی صارفین ان قیمتوں میں اضافے کو جذب کرتے ہیں.

بہت سی کمپنیوں کے لیے مشکل یہ ہے کہ انہیں قیمتوں میں اضافے کا توازن قائم رکھنا ہوتا ہے تاکہ ان پٹ لاگت میں اضافے کو پورا کیا جا سکے اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ وہ اس قدر نہ بڑھیں کہ یہ مانگ کو دبا دے شماریاتی ایجنسیاں پہلے گھرانوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی مختلف اشیا اور خدمات کی ”باسکٹ یا ٹوکری“ کی موجودہ قیمت کا تعین کر کے افراط زر ریکارڈ کرتی ہیںجسے پرائس انڈیکس کہا جاتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ افراط زر کی شرح، یا فیصد کی تبدیلی کا حساب لگانے کے لیے، ایجنسیاں ایک مدت کے دوران انڈیکس کی قدر کا دوسرے سے موازنہ کرتی ہیں، جیسے ایک ماہ سے دوسرے مہینے، جو مہنگائی کی ماہانہ شرح دیتا ہے، یا سال بہ سال، جو سالانہ دیتا ہے.

مثال کے طور پر امریکہ میں اس ملک کا بیورو آف لیبر سٹیٹسٹکس اپنا کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) شائع کرتا ہے، جو شہری صارفین کی جیب سے خریدنے والی اشیا کی قیمت ریکارڈ کرتا ہے اسی طرح پاکستان کا وفاقی ادارہ شماریات کام کرتا ہے سی پی آئی کو علاقوں کے لحاظ سے تقسیم کیا جاتا ہے اور پورے ملک کے لیے رپورٹ کیا جاتا ہے. ڈیمانڈ پل انفلیشن اس وقت ہوتی ہے جب معیشت میں اشیا اور خدمات کی مانگ معیشت کی انہیں پیدا کرنے کی صلاحیت سے زیادہ ہو جاتی ہے مثال کے طور پر جب نئی کاروں کی مانگ COVID-19 وبائی بیماری کے آغاز میں تیزی سے کم ہونے کی توقع سے زیادہ تیزی سے بحال ہوئی، سیمی کنڈکٹرز کی سپلائی میں مداخلت کی کمی نے آٹو انڈسٹری کے لیے اس نئی طلب کو برقرار رکھنا مشکل بنا دیا جس کے نتیجے میںنئی گاڑیوں کی قلت کے نتیجے میں نئی اور استعمال شدہ کاروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا.

لاگت کو بڑھانے والی افراط زر اس وقت ہوتی ہے جب ان پٹ سامان اور خدمات کی بڑھتی ہوئی قیمت حتمی سامان اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے مثال کے طور پر وبائی مرض کے دوران اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں مانگ میں بنیادی تبدیلیاں، خریداری کے انداز، خدمت کرنے کی لاگت اور مختلف شعبوں اور ویلیو چینز میں قدر کو سمجھا گیا افراط زر کو دور کرنے اور مالیاتی کارکردگی پر اثرات کو کم کرنے کے لیے، صنعتی کمپنیوں کو قیمتوں میں اضافے پر غور کرنے پر مجبور کیا گیا جو کہ ان کے آخری صارفین تک پہنچایا جائے گا.

جنوری 2022 میں امریکہ میں افراط زر کی شرح 7.5 فیصد تک توانائی کی بڑھتی قیمتوں، مزدوروں کی عدم مطابقت اور سپلائی میں رکاوٹ کے نتیجے میں پہنچ گئی جو کہ فروری 1982 کے بعد اس کی بلند ترین سطح تھی لیکن افراط زر کوئی نیا رجحان نہیں ہے ممالک نے ماضی میں مہنگائی کا بار بار سامنا کیا ہے امریکی بیورو آف لیبر سٹیٹسٹکس کے مطابق موجودہ مہنگائی کے دور کا ایک عام موازنہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور کے ساتھ ہے جب قیمتوں پر کنٹرول، رسد کے مسائل اور غیر معمولی مانگ نے دو ہندسوں پر مبنی افراط زر میں اضافہ کیا تھا جو کہ 1947 میں 20 فیصد تک پہنچ گئی تھی.

آج کھپت کے نمونوں کو بھی اسی طرح مسخ کیا گیا ہے، اور سپلائی چین وبائی امراض کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے 1960 کی دہائی کے وسط سے لے کر 1980 کی دہائی کے اوائل تک جسے ”عظیم افراط زر“ کے طور پر سمجھا جاتا ہے جس میں افراط زر کی کچھ بلند ترین شرحیں دیکھی گئیں 1980 میں یہ شرح 14.8 فیصد تھی اس افراط زر سے نمٹنے کے لیے فیڈرل ریزرو نے شرح سود میں اضافہ تقریبا 20 فیصد کیا تھا کچھ ماہرین اقتصادیات اس واقعہ کو جزوی طور پر مانیٹری پالیسی کی غلطیوں سے منسوب کرتے ہیں بجائے اس کے کہ دیگر مطلوبہ وجوہات، جیسے تیل کی مہنگی قیمتیں ‘عظیم افراط زر نے فیڈرل ریزرو کی افراط زر کے دباو¿ کو کم کرنے کی صلاحیت پر عوام کے اعتماد کی ضرورت کا اشارہ دیالیکن پاکستان جیسے ملکوں کی معیشت کے لیے یہ عوامل تباہ کن ہوتے ہیںجب ان میں معاشی امورکے ساتھ سیاسی امورکا بھی عمل دخل ہو.

افراط زر کے دوران کمپنیاں عام طور پر ان پٹ مواد کے لیے زیادہ ادائیگی کرتی ہیں کمپنیوں کے لیے نقصانات کو پورا کرنے اور مجموعی مارجن کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے لیکن اگر قیمتوں میں اضافے کو سوچ سمجھ کر عمل میں نہیں لایا جاتا تو کمپنیاں صارفین کے تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، فروخت کو کم کر سکتی ہیں اور مارجن کو نقصان پہنچا سکتی ہیں.

اگر افراط زر قیمتوں کے تعین کے سپیکٹرم کی ایک انتہا ہے، تو ڈیفلیشن دوسری ہے ڈیفلیشن اس وقت ہوتا ہے جب معیشت میں قیمتوں کی مجموعی سطح گر جاتی ہے اور کرنسی کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے یہ پیداواری صلاحیت میں اضافے اور سامان اور خدمات کی کثرت، مجموعی طلب میں کمی، یا رقم اور قرض کی فراہمی میں کمی کے ذریعے کارفرما ہو سکتا ہے عام طور پر، معتدل ڈیفلیشن صارفین کی جیب کو مثبت طور پر متاثر کرتا ہے کیونکہ وہ کم پیسوں میں زیادہ خریداری کرنے کے قابل ہوتے ہیں تاہم ڈیفلیشن ایک کمزور ہوتی ہوئی معیشت کی علامت ہو سکتی ہے، جس سے کساد بازاری اور ڈپریشن ہو سکتا ہے مہنگائی جہاں قوت خرید کو کم کرتی ہے، وہیں یہ قرض کی قدر کو بھی کم کرتی ہے.

ڈیفلیشن کے دوران دوسری طرف، قرض زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے صارفین مہنگائی کے دور میں ایک حد تک اپنی حفاظت کر سکتے ہیں جن صارفین نے اپنا پیسہ سرمایہ کاری میں لگایا ہے وہ اپنی آمدنی افراط زر کی شرح سے زیادہ تیزی سے بڑھتے دیکھ سکتے ہیں ڈیفلیشن کی ادوار میں تاہم سرمایہ کاری، جیسے کہ سٹاک، کارپوریٹ بانڈز اور رئیل اسٹیٹ کی سرمایہ کاری خطرناک ہو جاتی ہے.