Live Updates

حکومت' سائفر معاملے پر سپریم کورٹ کا بینچ بنوا دے تو پارلیمنٹ میں واپسی کا سوچا جا سکتا ہے، بابر اعوان

یسا ہی ایک خط ذولفقار علی بھٹو کے دور میں آیا تھا جس کے بعد ان کا عدالتی قتل کردیا گیا لانگ مارچ کے حوالے سے اعلی قیادت کے ساتھ مسلسل مشاورت جاری ہے، الیکشن کے لیے آخری احتجاج، آخری جلسہ یا آخری دھرنا اس میں سے فیصلہ عمران کریں گے، انٹرویو

ہفتہ 1 اکتوبر 2022 21:57

حکومت' سائفر معاملے پر سپریم کورٹ کا بینچ بنوا دے تو پارلیمنٹ میں واپسی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 اکتوبر2022ء) تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف چاہتی ہے کہ سائفر معاملے کی تحقیقات سپریم کورٹ آف پاکستان کرے۔ اگر 'امپورٹڈ حکومت' سائفر معاملے پر سپریم کورٹ کا بینچ بنوا دے تو پارلیمنٹ میں واپسی کا سوچا جا سکتا ہے ،چیف جسٹس کے مشورے کا شکریہ، لیکن سیاسی فیصلے عدالتیں نہیں سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ ن کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اس دعوے کو رد کر دیا کہ سائفر کی تحقیقات ہو چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے نزدیک تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری بھی مکمل ہو چکی ہے۔ایک سوال پر اٴْن کا کہنا تھا کہ عمران خان دو تہائی اکثریت کے بعد ہی اب پارلیمنٹ میں واپس آئیں گے، لیکن اگر 'امپورٹڈ حکومت' سائفر معاملے پر سپریم کورٹ کا بینچ بنوا دے تو پارلیمنٹ میں واپسی کا سوچا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان کے باوجود اس کے التوا کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بابر اعوان نے کہا یہ سیاسی حکمتِ عملی کے تحت ہی ہوتا ہے کہ کون سے فیصلے کا کب اعلان کیا جانا ہے۔انہوں نے بتایا کہ عمران خان کی سربراہی میں لانگ مارچ کے حوالے سے اعلی قیادت کے ساتھ مسلسل مشاورت جاری ہے اور اس حوالے سے فیصلے کر رکھے ہیں۔ انہوں نیکہا کہ " دیر نہیں ہی(لانگ مارچ میں)، الیکشن کے لیے آخری احتجاج، آخری جلسہ یا آخری دھرنا اس میں سے فیصلہ عمران کریں گے۔

"امریکی مراسلے کے تناظر میں لیک ہونے والی آڈیو زکے افشا ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا کہ اس لیک آڈیو سے سائفر ایک حقیقت کے طور پر ثابت ہوگیا۔ انہوں نے کہا عمران خان کی آڈیو لیک میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ہمارے موقف کی نفی کرتی ہو بلکہ یہ ایک اضافی ثبوت ہے کہ سازش کے ذریعے ہماری حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔بابر اعوان کہتے ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی سائفر کے حوالے سے کہا مداخلت ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا ہی ایک خط سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے دور میں آیا تھا جس کے بعد ان کا عدالتی قتل کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ دور اور تھا اور آج کے حالات مختلف ہیں اور عمران خان قوم کو جگانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقصد تھا کہ عمران کے خلاف مقدمات کا اندراج کرکے انہیں گرفتار کیا جائے لیکن انہیں اس حوالے سے درکار ثبوت دستیاب نہیں ہوسکے۔

بابر اعوان نے کہا س کے بعد حکومت کی کوشش تھی کہ توشہ خانہ کے مقدمے میں عمران خان کو سزا سنائی جائے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے اتحادی جماعت کے سابق وزیرِ اعظم نے تین گاڑیاں گفٹ کی تو اس سے بھی پیچھے ہٹ گئے۔الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف چلنے والے معاملات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت ہے نہ ہی ٹرائل کورٹ، اس لیے وہ کسی کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے صادق و امین ہونے کا فیصلہ دے سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی پر پابندی لگنے کے خدشے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار نہیں ہے اور اس حوالے سے کیے جانے والے تبصرے غلط معلومات پر مبنی ہیں۔ انکا کہناتھا پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن میں غیر ملکی فنڈنگ نہیں بلکہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ہے جس پر پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 کے تحت فنڈنگ ضبط ہوتی ہے اور جماعت پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے پر بات کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ عدالتی معاونین بھی کہہ چکے تھے کہ عمران خان کے الفاظ کا چناؤ قابل اعتراض ہوسکتا ہے مگر اس میں توہینِ عدالت کا عنصر شامل نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ عمران خان گزشتہ پیشی پر بھی بات کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں بات کرنے نہیں دی گئی بہرحال عدالت نے ان کی وضاحت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات