حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کی غیر معمولی سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 816 ملین ڈالر کی نئی فلیش اپیل جاری

منگل 4 اکتوبر 2022 22:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 اکتوبر2022ء) حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ نے غیر معمولی سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 816 ملین ڈالر کی نئی فلیش اپیل جاری کر دی ۔ نیا نظرثانی شدہ '2022 پاکستان فلڈ رسپانس پلان' جنیوا میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو فراہم کر دیا گیا ہے۔ نظرثانی شدہ فلیش اپیل کے مطابق لوگوں کی زندگی بچانے کے لئے بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے فوری طور پر 816 ملین ڈالر کی ضرورت ہے جو کہ 160 ملین ڈالر کی ابتدائی اپیل سے 656 ملین ڈالر زیادہ ہے۔

یہ اضافہ بڑھتی ہوئی ضروریات کی عکاسی کرتا ہے اور موجودہ موسمیاتی آفت کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی شدت کا عکاس ہے۔ منگل کو دفتر خارجہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق پاکستان میں سیلاب نے 33 ملین کی آبادی کو متاثر کیا ہے، 1,600 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں اور لاکھوں افراد کو مزید خطرہ بھی لاحق ہے اور پہلی آفت کے اندر دوسری آفت کا خطرہ ہے۔

(جاری ہے)

20 لاکھ سے زیادہ گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں جبکہ متاثرین ڈینگی، ملیریا، اور موسم سرما کی سخت سردی کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ مزید برآں 1,500 سے زیادہ صحت اور امداد کی سہولیات کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ 13,000 کلومیٹر سڑکیں بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے ضرورت مند خاندانوں تک پہنچنا انتہائی مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے۔

نئی اپیل کا فوکس 31 مئی 2023 تک 9.5 ملین افراد کو فوری اور جان بچانے والی انسانی امداد اور تحفظ کی فراہمی پر ہے، جس میں بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے 34 سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ یہ ترجیح تباہ شدہ اور متاثرہ مکانات کی تعداد، پانی کی سطح کے حوالے سے دستیاب تخمینوں اور اضلاع میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی آبادی کی تعداد پر مبنی ہے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تباہی کا پیمانہ تمام پچھلی موسمیاتی آفات سے بہت زیادہ ہے اور اس سے بہت سے ممالک کے حجم سے بڑی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے ملک کے بڑے حصے کے مسلسل زیر آب ہونے کا حوالہ دیا اور اس طرح کے سیلاب سے صحت کو لاحق خطرات کو بھی اجاگر کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی معیشت کو بڑا جھٹکا برداشت کرنا پڑا ہے اور اس سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ اس ماحولیاتی تبدیلی کے فرنٹ لائنز میں تنہا جدوجہد کرے گا حالانکہ گرین ہاؤس گیسوں کے مجموعی اخراج میں اس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس آفت کا مؤثر طریقے سے جواب دینے کے لیے ’رضاکارانہ اتحاد‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے صحت، غذائی تحفظ اور بحالی کے شعبوں میں مخصوص اور فوری ضروریات کا خاکہ پیش کیا۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ یہ یکجہتی کا نہیں بلکہ ماحولیاتی انصاف کا سوال ہے۔ انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور مارٹن گریفتھس نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں لوگ موسمیاتی بحران کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، جہاں تباہ کن سیلاب نے سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو متاثر کیا ہے۔

اب سردیوں کی آمد کے پیش نظر فنڈز کی فوری ضرورت ہے تاکہ صحت، خوراک اور دیگر بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کی تیاری کی جا سکے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریئس نے کہا کہ پانی بڑھنا بند ہو گیا ہے لیکن خطرہ نہیں ہے، ہم صحت عامہ کی تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اگر ہم نے پاکستان کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد کو متحرک نہ کیا تو آنے والے ہفتوں میں سیلاب میں ضائع ہونے والی جانوں سے کہیں زیادہ جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او اب پاکستان کے لوگوں کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک ہم ماحولیاتی تبدیلی کے وجودی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، ہم اس طرح کی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرتے رہیں گے۔ وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے کہا کہ یہ تباہی پاکستان کی قیمت پر دنیا کے لئے موسمیاتی وارننگ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نقصانات کا تخمینہ اب تک اربوں ڈالر میں لگایا گیا ہے، زمین کے بڑے حصے اب بھی زیر آب ہیں، جس سے زراعت سے وابستہ لوگوں کے لئے فصلوں کی کاشت ناممکن ہو گئی ہے۔

انہوں نے سیلاب سے نجات کے لئے حکومت کی کوششوں میں مدد کرکے ہر ایک کی جان بچانے کی اہمیت پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کے پاکستان میں ریزیڈنٹ اور ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے کہا کہ اب ہم سیلاب کی وجہ سے ہلاکتوں اور تباہی کی دوسری لہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے فنڈز غذائی تحفظ، صحت کی دیکھ بھال، پینے کے صاف پانی اور صفائی کے لئے خرچ ہوں گے۔

سیو دی چلڈرن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر انگر ایشنگ نے اس موقع پر پاکستان ہیومینٹیرین فورم کی نمائندگی کی۔ انہوں نے عطیہ دہندگان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس جانیں بچانے والے ردعمل کو آگے بڑھائیں اور مکمل طور پر فنڈ دیں۔ انہوں نے امدادی کاموں کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں انسانی ہمدردی کے نیٹ ورک کی کوششوں کی تعریف کی۔ وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے قومی اور بین الاقوامی امداد دہندگان کو خصوصی خراج تحسین پیش کیا جو ضرورت مندوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی قوت اور برداشت اور بین الاقوامی برادری کی حمایت کے ساتھ اس چیلنج پر قابو پانے اور مضبوطی سے واپسی کے لیے پرعزم ہیں۔ ہمارے سامنے ایک طویل سفر ہے، ہم بین الاقوامی برادری کی مسلسل توجہ اور حمایت پر بھروسہ کرتے رہیں گے جیسا کہ ہم پائیدار بحالی اور تعمیر نو کے بڑے کام کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو نہ صرف زندہ رہنا ہے بلکہ بحرانوں کے بعد بھی ترقی کی منازل طے کرنی ہیں۔

اس موقع پر عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ کے رکن ممالک، اقوام متحدہ کے اداروں اور بین الاقوامی انسانی تنظیموں نے اس تقریب میں شرکت کی اور موسمیاتی تباہی کے تناظر میں پاکستان کے عوام کے لیے یکجہتی اور حمایت کا اظہار کیا ۔ ایک ماہ قبل تخمینوں کی بنیاد پر فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ابتدائی 160 ملین ڈالر کی فلیش اپیل کی گئی تھی تاہم حالیہ ضروریات کے جائزوں کے نتائج کی وجہ سے فلیش اپیل کو 816 ملین ڈالر تک بڑھایا گیا ہے۔

حکومت پاکستان، اقوام متحدہ، انسانی اور فلاحی تنظیمیں اور مقامی کمیونٹیز پاکستان بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امداد فراہم کرنے کے لیے سخت محنت کر رہی ہیں۔ عالمی برادری قابل قدر مدد کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود سیلاب کی غیر معمولی نوعیت کے نتیجے میں وسائل کا بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جو امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ یکجہتی، عزم اور بوجھ کے اشتراک کے حصے کے طور پر جاری انسانی بنیادوں پر کارروائیوں کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی مدد انتہائی اہم ہے۔