’دہشت گرد ریاستی پشت پناہی کے حامل،‘ ترجمان سوات قومی جرگہ

DW ڈی ڈبلیو بدھ 12 اکتوبر 2022 18:20

’دہشت گرد ریاستی پشت پناہی کے حامل،‘ ترجمان سوات قومی جرگہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اکتوبر 2022ء) مینگورہ "مزید دہشت گردی نہیں" اور "ہم ریاست سے امن کا مطالبہ کرتے ہیں" کے نعروں سے گونج اٹھا۔ علاقے میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے خلاف سینکڑوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

اس ریلی کے شرکا نے حکومت سے فائرنگ کے حالیہ واقعے میں ملوث حملہ آوروں کو فوری گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ بصورت دیگر وہ وفاقی دارالحکومت کی طرف مارچ کریں گے۔

سوات قومی جرگہ کے ترجمان خورشید کاکا جی کے مطابق سوات کے عوام باشعور ہو چکے ہیں اور دہشت گردی کے ان متواتر واقعات سے تنگ آچکے ہیں اور اب خیبر پختونخوا کے عوام امن کی خاطر یہ جلسے مسلسل کرتے رہیں گے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''پختون عوام کو لاحق ان تکالیف کے تناظر میں اب یہ امن جلسے ہوتے رہیں گے۔

(جاری ہے)

یہ اسٹیٹ اسپانسرڈ دہشت گردی عوام کو بہت مہنگی پڑی ہے اور علاقے کا کاروباری نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

‘‘

خورشید کاکا جی نے کہا کہ دہشت گردی کے باعث سینکڑوں جانوں کا ضیاع ہو ا ہے اور اسی لیے وہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے اب سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

مینگورہ میں اس ریلی کا انعقاد سوات اولسی پسون نے کیا تھا اور اس میں سول سوسائٹی کے اراکین، طلباء، اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹرز، ٹرانسپورٹرز اور نوجوانوں سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔

سوات کے امن جرگہ کے ضلعی صدر غلام علی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پختونوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، ''اگر ہماری فوج جو سیٹلائیٹ کے ذریعے ایک مچھر کا پتا لگا سکتی ہے تو طالبان کا کیوں نہیں؟

انہوں نے کہا، ''اگر ہماری فوج مٹھی بھر طالبان سے ہار گئی ہے تو سوات کو ہمارے حوالے کر دیں۔ یہاں کے عوام اپنی مدد آپ کے تحت امن کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔

ہمارے بچے مر رہے ہیں اور ہمارا دل رو رہا ہے۔‘‘

سوات میں فائرنگ کا حالیہ واقع

سوات میں ایک اسکول وین پر فائرنگ کے نتیجے میں ڈرائیور مارا گیا تھا جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا تھا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے سوات اور اس کے مضافات میں ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں، جنہیں دہشت گردی سے منسوب کیا جاتا رہا ہے اور اب مینگورہ میں یہاں کے مقامی افراد امن کے قیام کے لیے ایک بڑا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ایک بڑے مظاہرے کے شرکاء میں پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین، سوات اولسی پسون کے صدر فواد خان، بزرگ سیاست دان افراسیاب خٹک، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پی کے صدر ایمل ولی خان، جماعت اسلامی (جے آئی) کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور دیگر کئی اہم شخصیات بھی شامل ہوئیں۔

"پاکستان کے ہر شہری کو ریاست کی طرف سے یقینی تحفظ کا آئینی حق حاصل ہے۔

بدقسمتی سے، بڑے پیمانے پر دفاعی بجٹ کے باوجود، ریاست یہاں امن کو یقینی بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے،" سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنی تقریر میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا، ''اگر سیکیورٹی فورسز اور ریاست سوات میں امن و استحکام کو یقینی بنانے میں ناکام رہے تو کے پی کے عوام معاملات اپنے ہاتھ میں لیں گے۔‘‘

انہوں نے زور دیا کہ "ہم، کے پی کے عوام، سوات کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

ہماری ریاست ماں کا کردار ادا نہیں کر رہی، پختون اپنے علاقوں میں محفوظ نہیں اور اس کی ذمے دار ریاست ہے۔‘‘

سوات میں موجود صحافی شہزاد نوید نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ علاقے میں حالیہ دنوں میں بد امنی کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں سرکاری حکام کے اغوا اور فائرنگ کے واقعات بھی شامل ہیں۔

شہزاد نوید نے مزید کہا، ''خیبر پختونخواہ کے عوام ان مسلسل واقعات سے اکتا چکے ہیں۔

گزشتہ روز منعقد ہوئی اس امن ریلی میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، جو حکومت وقت سے علاقے میں امن و امان کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آئے۔‘‘

حکام کی جانب سے سوات میں بد امنی کی شدید مذمت

شیریں رحمان نے کہا ہے کہ حکومت سوات میں اسکول وین پر فائرنگ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں سوات میں اسکول وین پر فائرنگ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ضیا الرحمان جو خود بھی اس ریلی میں موجود تھے، نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سوات کے عوام 2008 اور 2009 کی دہشت گردی کے واقعات سے اتنا تنگ آچکے ہیں کہ اب وہ دوبارہ اس دلدل میں پھنسنا نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا، '' تحریک لبیک طالبان کے خاتمے کے حکومتی دعوں کے بعد اس طرح کے واقعات عوام میں تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔

‘‘

ضیا الرحمان نے مزید کہا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے دہشت گردی کے کنٹرول کے لیے کئی کوششیں کی گئیں۔ اس ضمن میں افغان طالبان کی ثالثی میں ان دہشت گرد عناصر اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے مابین سیز فائر کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ تاہم اس تازہ ترین واقعے کے بعد خیبر پختونخوا کی عوام فوج سے یہ سوال کرتے نظر آرہے ہیں کہ کیا انہیں پچھلی بار کی طرح گھر بدر ہونا پڑے گا؟ انہوں نے کہا، ''لوگ اس وقت خوف میں مبتلا ہیں۔

‘‘

سوات میں اس سے قبل ماضی قریب میں بھی ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ ایک واقعے میں مینگورہ بائی پاس پر دو افراد کی ہلاکت ہوئی تھی، جنہیں سکیورٹی فورسز کی جانب سے ٹی ٹی پی سے منسوب بتایا گیا تھا۔ ان افراد کے لواحقین کا تاہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ لین دین کا کچھ معاملہ تھا جس میں سکیورٹی اہلکاروں نے مداخلت کی تھی۔

اس سے قبل ادریس خان نامی ایک شخص کو ضلع سوات کے علاقے برہ بانڈئی میں ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں قتل کیا گیا جس کی ذمے داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔

ادریس خان سوات امن لشکر کے سابق سربراہ تھے جن کے متعلق یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ علاقے میں طالبان کے خلاف آپریشن میں فوج کا ساتھ دیتے رہے تھے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ آج سے ٹھیک 10 سال قبل 9 اکتوبر 2012 کو سوات میں اسکول وین پر فائرنگ میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کو زخمی کر دیا تھا اور یہاں کے عوام کو خدشہ ہے کہ یہاں وہی تاریخ ایک بار پھر دہرائی جارہی ہے۔