علی وزیر ریاست مخالف مقدمہ سے باعزت بری

DW ڈی ڈبلیو منگل 25 اکتوبر 2022 20:20

علی وزیر ریاست مخالف مقدمہ سے باعزت بری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اکتوبر 2022ء) وزیر کے وکیل کے مطابق انہیں اس مقدمے میں پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ دو سال سے زیادہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقدمہ کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں درج کیا گیا۔

وزیر 31 دسمبر 2020 ء سے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت اور غداری کے لیے اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

وزیر کے خلاف کراچی کے مختلف تھانوں میں چار مقدمات درج ہیں اور انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ چاروں مقدمات میں وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا۔

ان کے اور پارٹی کے کچھ دیگر رہنماؤں کے خلاف مذکورہ الزامات سے متعلق انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعات کے تحت سہراب گوٹھ، شاہ لطیف ٹاؤن اور بوٹ بیسن تھانوں میں چار ایک جیسے مقدمات درج کیے گئے تھے۔

(جاری ہے)

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کی گرفتاری

علی وزیر کو کراچی کے چاروں مقدمات میں ضمانت مل چکی تھی

علی وزیر کے خلاف کراچی کے بوٹ بیسن تھانے میں دائر مقدمے میں ماہ ستمبر میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ایک لاکھ روپے کے عوض ضمانت منظور کی تھی جو ان کے خلاف کراچی میں درج چوتھا اور آخری مقدمہ تھا۔

ایک کیس میں سپریم کورٹ، دوسرے کیس میں سندھ ہائی کورٹ، تیسرے کیس میں ٹرائل کورٹ اور آخری مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان کی ضمانت منظور کی تھی۔

’یہ کام کسی نے بھی کیا ہو، انگلیاں تو سکیورٹی اداروں پر ہی اٹھیں گی‘

علی وزیر 9 ستمبر سے ہسپتال میں زیر علاج ہیں

رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو طبیعت خراب ہونے پر نو ستمبر بروز جمعہ جیل سے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) منتقل کیا گیا تھا ہسپتال انتظامیہ کے مطابق علی وزیر آنت میں انفیکشن کے باعث زیرعلاج ہیں۔

ڈاکٹرز نے ان کو انڈر آبزرویشن رکھا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ان کا آپریشن کیا جائے گا۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں علی وزیر کا ذکر رہا

دو روز قبل لاہور میں منعقد ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بھی علی وزیر کا ہی تذکرہ رہا، پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے اپنے خطاب میں علی وزیر کی گرفتاری پر فوج، عدلیہ اور سیاستدانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

کانفرنس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے دوران جب علی وزیر کی رہائی کے لیے نعرے بازی ہورہی تھی تو انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اعلٰی حکام سے رابطے کا مشورہ دیا، جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی کانفرنس میں شریک تھے جن کی موجودگی میں شرکا کی جانب سے فوج مخالف نعرے بازی کی گئی۔ گذشتہ رات وزیر قانون کی جانب سے دیے جانے والے استعفے کو بھی اسی معاملے سے جوڑا جارہا ہے۔