'دا کشمیر فائلز' کے خلاف سرعام بولنا آسان نہ تھا، اسرائیلی فلم ساز

DW ڈی ڈبلیو بدھ 30 نومبر 2022 15:40

'دا کشمیر فائلز' کے خلاف سرعام بولنا آسان نہ تھا، اسرائیلی فلم ساز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 نومبر 2022ء) گوا میں منعقدہ بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں جیوری کے سربراہ کے طور پر اسرائیلی فلم ساز ناداف لاپیڈ کا بالی وڈ فلم'دا کشمیر فائلز' کے حوالے سے کیے گئے تبصرے پر ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بھارت کے متعدد حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ معاملہ گرم ہے۔

مذکورہ فلم کے فلم ساز وویک رنجن اگنی ہوتری، فلم میں کردار ادا کرنے والے معروف اداکار انوپم کھیر، بالی ووڈ کی متعدد فلمی شخصیات کے علاوہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے رہنماوں اور وزراء بھی لاپیڈ کی مسلسل نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

بھارت میں پاکستانی فنکاروں کی خدمات لینے پرسخت نتائج کی دھمکی

بھارت میں اسرائیلی سفیر نیور گیلون نے سلسلہ وار ٹویٹ کرکے لاپیڈ کے تبصرے پر معذرت کرتے ہوئے اسرائیلی فلم ساز کو بھارتی عوام سے معافی مانگنے کے لیے کہا ہے۔

(جاری ہے)

ان تمام ہنگاموں کے درمیان ناداف لاپیڈ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا "یہ سب کیا ہو رہا ہے، یہ پاگل پن ہے۔"

'کسی نہ کسی کو تو بولنا ہی تھا'

ایک اسرائیلی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں لاپیڈ کا کہنا تھا کہ اس طرح کا سیاسی بیان دینا آسان نہیں تھا۔

"مجھے معلوم تھا کہ یہ ایک ایسی تقریب ہے جو اس (میزبان) ملک کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جہاں ہر کوئی کھڑا ہو کر حکومت کی تعریف کرتا ہے۔

میرے لیے فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ میں ایک تو مہمان تھا دوسرے جیوری کا صدر اور میری کافی اچھی مہمان نوازی بھی کی گئی تھی۔"

اسرائیلی فلم ساز نے مزید کہا کہ ہال میں ہزاروں افراد موجود تھے، جن میں فلمی ستارے، سرکاری عہدیداراور دیگر اہم شخصیات بھی تھیں جو حکومت کی تعریف سننا چاہتی تھیں۔ لیکن "ایسے ملک میں جہاں اپنے دل کی بات یا حقیقت کا اظہار کرنے کی صلاحیت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہو، کسی نہ کسی کو تو بولنا ہی تھا۔

"

خیال رہے کہ ناداف لاپیڈ نے فلمی میلے کے اختتام پر اپنی تقریر میں 'دا کشمیر فائلز' کو نمائش میں شامل کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے 'پروپیگنڈا' اور 'فحش' فلم قرار دیا تھا۔ جس وقت وہ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے وہاں بھارت کے وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر اور ریاستی وزیر اعلی کے علاوہ متعدد اہم شخصیات موجود تھیں۔

ناداف لاپیڈ نے مزید کہا "مجھے خدشہ تھا، مجھے پریشانی بھی لاحق تھی کیونکہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے بیان پر کیا ردعمل ہوگا۔ بہر حال میں خوش ہوں اور ایرپورٹ کی جانب جا رہا ہوں۔"

آخر انہوں نے ایسا تبصرہ کیوں کیا؟

جب اسرائیلی فلم ساز سے پوچھا گیا کہ انہوں نے 'دا کشمیر فائلز' کے بارے میں اس طرح کا تبصرہ کیوں کیا تو لاپیڈ کا کہنا تھا، "وہ یہ دیکھ کر متحیر رہ گئے تھے کہ اس فلم میں کشمیر کے متعلق بھارتی پالیسی کو درست ٹھہرایا گیا ہے۔

اور اس میں فاشسٹ عناصر موجود ہیں۔"

لاپیڈ نے مزید کہا کہ حالانکہ یہ فلم بھارتی حکومت نے نہیں بنائی ہے لیکن کم از کم اس نے غیر معمولی طریقے سے اس کی تشہیر ضرور کی۔ اور اگر چند برس بعد اسی طرح کی کوئی فلم اسرائیل میں بنائی جائے تو انہیں اس پر قطعی حیرت نہیں ہوگی۔

کشمیری پنڈتوں کی وادی کشمیر سے جلا وطنی اور انہیں درپیش مسائل پر مبنی اس فلم کی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی تعریف کی تھی۔

جس کے بعد بی جے پی کے ریاستی وزرائے اعلی اور اہم رہنماوں کی جانب سے اس کی تعریف کے پل باندھے گئے تھے۔ بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے اس کو ٹیکس سے مستشنی کر دیا اور اس نے 340 کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کیا۔

'کشمیری پنڈتوں کو اپنے گھر واپس لوٹنے میں بظاہر دلچسپی نہیں'

’عامر خان کے خلاف نفرت انگیزی ایک مہم ہے‘

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے لیے اس فلم کی ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں خصوصی نمائش کی گئی تھی۔

انہوں نے فلم دیکھنے کے بعد کہا تھا کہ جو لوگ سچائی دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں انہیں یہ فلم ضرور دیکھنی چاہئے۔

حالانکہ کمزور کہانی اور فنی پہلووں کے مدنظر ناقدین اور مبصرین نے ابتدا سے ہی اسے معمولی درجے کی فلم قرار دیا تھا۔