قطر میں ورلڈ کپ سے ’لطف اندوز‘ ہوتے غیر ملکی مزدور

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 1 دسمبر 2022 19:00

قطر میں ورلڈ کپ سے ’لطف اندوز‘ ہوتے غیر ملکی مزدور

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 دسمبر 2022ء) قطراپنے تارکین وطن مزدوروں کے بغیر 2022 ءکے ورلڈ کپ کی میزبانی نہیں کر سکتا تھا۔ ان مزدوروں میں سے کچھ تو اپنی جانوں تک سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ قطر کی ٹیم نے جب منگل کو نیدرلینڈز کے خلاف ورلڈ کپ کا اپنا آخری میچ کھیلا تو دوحہ کے مضافات میں واقع ایشین ٹاؤن کرکٹ اسٹیڈیم ایک بار پھر سرگرمیوں کا مرکز بنا۔

اس اسٹیڈیم میں ہزاروں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ یہ سب ایک ہی بڑی اسکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ اس طرح بہت سے مہاجر مزدور انڈسٹریل فین زون میں بیٹھ کر ورلڈ کپ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دوحہ کی شاندار سڑکوں اور فلک بوس عمارتوں سے 45 منٹ کی ڈرائیو پر اس علاقے میں آپ کسی سیاح کو نہیں دیکھیں گے۔ یہ اسٹیڈیم تارکین وطن مزدوروں کی واحد سلطنت ہے۔

(جاری ہے)

ہر روز ہزاروں لوگ ورلڈ کپ میچ دیکھنے یہاں آتے ہیں۔ ان شائقین میں اکثریت کی عمریں 20 سے 40 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بھارت، بنگلہ دیش، کینیا، نیپال یا پاکستان سے ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد نے میزبان قطر کی طرف سے ورلڈ کپ کے انعقاد کے لیے بنائے گئے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں حصہ لیا۔ ان مزدوروں میں سے کچھ تو اس راستے میں اپنے ساتھی بھی کھو بیٹھے۔

دوحہ کے مرکز سے مختلف ماحول

اس رات موسیقی کے ساتھ ان مزدوروں کا دل بہلایا گیا کیونکہ شو کے میزبان نے ہجوم کی زور دار تالیوں میں ان میں سے کچھ کو ہندی لفظی کھیل کھیلنے کے لیے بڑے اسٹیج پر بلایا۔ 26 سالہ اومنا ریان ایکنیپالیالیکٹریشن ہیں، جو چار سال قبل قطر منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے اس ایونٹ کی کچھ فوٹیج اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کی، جہاں ان کے دو ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں۔

بیرون ملک زندگی کی ان تصاویر اور ویڈیوز نے انہیں پیچھے اپنے ملک میں اپنے دوستوں میں مقبول بنا دیا ہے۔

ریان ایک ماہ میں 1,200 ریال ($329) کماتے ہیں، جس کا بڑا حصہ وہ اپنے والدین کو واپس گھر بھجواتے ہیں۔ ریان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہاں کی تنخواہ نیپال سے بہتر ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں قطر چلا آیا۔‘‘

یہی صورتحال بھارت سے تعلق رکھنے والے 25 سالہتعمیراتی ورکر ابراہیم غازی کی بھی ہے۔

وہ بہت سے لوگوں کی طرح ذاتی طور پر کسی ایک کھیل میں شرکت کی اپنی حتمی خواہش پوری نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا، ''جب میں نے ٹکٹ خریدنے کی کوشش کی، تو وہ بک گئے۔‘‘ غازی ماہانہ 3000 ریال ($797) کماتے ہیں۔

دوسری طرف بھارت سے تعلق رکھنے والے شمس میچ کا ‌ٹکٹ حاصل کر لینے والے چند خوش نصیبوں میں شامل تھے۔ وہ تقریباً 13 سال سے قطر میں رہائش پذیر ہیں۔

ان کا خاندان بھی یہیں رہتا ہے۔ انہوں نے میچ کے لیے 60 یوروکے برابر رقم خرچ کی۔

شمس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ملک کی تعمیر میں مدد کی،''کیوں کیا ہمیں قطریوں کی طرح ورلڈ کپ کا تجربہ کرنے اور جشن منانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے؟‘‘ شمس فٹ بال گراؤنڈ کے ساتھ فیفا کی مخصوص برانڈنگ میں سجایا گیا ایک سینڈوچ اسٹال چلاتے ہیں لیکن یہاں شراب نہیں پیش کی جاتی۔

شمس نے کاؤنٹر کے پیچھے سے سرگوشی کی''بیئر کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

جان لیوا لیکن منافع بخش کام

جن تنخواہوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مغربی معیارات کے مطابق زیادہ نہیں ہیں لیکن جنوب مشرقی ایشیا کے یہ افراد قطر کی جانب سے ان تنخواہوں کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جس سے وہ اپنے آبائی ممالک سے زیادہ کمائیں گے اور اپنے زیر کفالت افراد کی مدد کریں گے۔

پھر بھی یہ ملازمتیں ان کے بہت سے خاندانوں کے لیے درد کا باعث بھی رہی ہیں۔ اس ہفتے ورلڈ کپ کی آرگنائزنگ کمیٹی کی سپریم کمیٹی آف ڈیلیوری اینڈ لیگیسی کے سیکرٹری جنرل حسن التہوادی نے اعتراف کیا تھا کہ ٹورنامنٹ کے دوران 400 سے 500 کے درمیان تارکین وطن کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔

بعد ازاں اس تعداد پر نظر ثانی کی گئی اور کہا گیا کہ 2014 ء اور 2020ء کے درمیان 414 اموات ہوئیں۔

تاہم میڈیا رپورٹس نے اموات کی تعداد 6,500 سے زیادہ بتائی ہے۔ ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے بہت سے تارکین وطن کارکنوں کو ناقابل برداشت حالات میں مشقت کرنی پڑی۔

التہوادی نے کہا کہ ورلڈ کپ کی جانچ پڑتال کے ساتھ روزگار کے قوانین میں بہتری لائی گئی ہے، جس سے تارکین وطن کارکنوں کے تئیں رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اموات کو روکنے کے لیے کام کی جگہوں پر صحت اور حفاظت کے اقدامات کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔

لیکن انسانی حقوق کے گروپوں نے فیفا سے متاثرہ کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں سے بہت سے اب صحت کی خراب حالت کی وجہ سے کام کرنے سے قاصر ہیں۔ قطر نے تاہم ان کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام کارکنوں کی واجب الادا تنخواہیں اس کے ورکرز سپورٹ اینڈ انشورنس فنڈ سے ادا کر دی گئی ہیں۔

شکست کے باوجود فرار

لیکن فٹ بال کا جادو یہ ہے کہ یہ آپ کو روزمرہ کے چیلنجوں اور پریشانیوں سے دور لے جا سکتا ہے اور یہی بات پورے ٹورنامنٹ میں ایشین ٹاؤن کرکٹ سٹیڈیم میں ہوتی رہی ہے۔

جب فٹ بال میچ نہیں چل رہا ہوتا ہے تو مختلف فنکار اسٹیج پر پرفارم کرتے ہیں۔ آج شام یہ بھارتی اداکارہ لِنسیا روزاریو کا کام تھا کہ وہ سامعین کو مشغول رکھیں۔ روزاریو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسٹیڈیم بنائے اور یہی وجہ ہے کہ آج قطر، قطر ہے، اور ان کے لیے یہ کرنا اعزاز کی بات ہے۔ میں یہاں اس لمحے کو ان کے لیے خاص بنانے کے لیے ہوں اور انہیں اس لمحے میں زندہ رہنے کے لیے اس کام سے لطف اندوز کرنے کے لیے حاضر ہوں جو انہوں نے کیا ہے۔

‘‘

کچھ حاضرین نے اسٹیج پر آنے اور لاؤڈ اسپیکرز سے بجنے والی ہندی موسیقی پر رقص کرنے کے لیے ہمت باندھی۔ جب وہ رقص کر رہے تھے تو دیگر افراد زور سے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ کھیل کےمعاملے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ دو کے مقابلے میں صفر سے شکست کے بعد بہت سے قطری تماشائی مایوس ہو کر چلے گئے۔ میزبان قطر اپنے گروپ کے تینوں میچ ہارا ہے۔ ابراہیم غازی کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی ٹیم سے پیار ہے، ''یہ افسوسناک ہے لیکن وہ (قطر) فٹ بال میں بہت اچھے نہیں ہیں۔‘‘

ش ر⁄ ع ا ( لولیڈ ایڈیوی ، پاسکل یوخم)