نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی سینئر صحافیوں سے ملاقات

7 دسمبر کو جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کررہا ہوں ،سابق وزیراعلیٰ بلوچستان

ہفتہ 3 دسمبر 2022 22:59

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 دسمبر2022ء) چیف آف سراوان سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا ہے کہ وہ7 دسمبر کو جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کررہے ہیں ، جمعیت میں شمولیت غیر مشروط طور پر ہے ،بلوچستان کے مالی بحران کا حل فنانشل مینجمنٹ میں ہے ، لاپتہ افراد کا معاملہ انسانی المیہ ہے ، پہاڑوں پر جانے والے بلوچوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔

یہ بات انہوں نے ہفتہ کو سراوان ہائوس کوئٹہ میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا کہ جمعیت علمائ اسلام میں شمولیت اختیار کرنے جارہا ہوں میرے اور جمعیت علماء اسلام کے سولین بالا دستی ، تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے سمیت دیگر نظریات مشترک ہیں، اس وقت بلوچستان میں دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت جمعیت علماء اسلام سب سے منظم اور مضبوط سیاسی قوت ہے جو بلوچستان کے مسائل کو ملکی سطح پر بہتر انداز میں اجاگر اور صوبے کے آئینی حقوق کے حصول کی بات کر سکتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ میرے اور جمعیت علماء اسلام کے مراسم 2008ء سے ہیں جمعیت کی قیادت نے میری وزرات اعلیٰ کے دور این ایف سی ایوارڈ ، گوادر کو سرمائی دارالحکومت قرار دینے ، ریکوڈک کے معاملے میں میرا بھرپور ساتھ دیا تھا جس کے بعد ہم نے سینیٹ اور عام انتخابات میں بھی ووٹ دیئے۔ جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا فیصلہ اس کے منشور اور جدوجہد کو مدنظر رکھ کر کیا امید ہے کہ جے یو آئی صوبے اور ملکی سیاست میں اپنی مثبت سیاسی جدوجہد کو مزید پروان چڑھائے گی۔

انہوں کہا کہ کافی عرصہ سے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کے حوالے سے اپنے لوگوں اور قبائلی زعماء سے مشاورتی عمل جاری تھا تقریبا ایک سال قبل ہی جے یو آئی میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا تاہم جمعیت میں شمولیت میں تاخیر مولانا فضل الرحمٰن کی پی ڈی ایم سمیت دیگر سیاسی اور میری ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جمعیت علماء اسلام میں غیر مشروط طور پر شامل ہورہا ہوں کسی بھی جماعت میں رہا اپنا واضح موقف رکھا اپنے صوبے اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہمیشہ آواز بلند کی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے اگرچہ تمام قوم پرست و مذہبی جماعتیں جدوجہد کرتی چلی آرہی ہیں ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ تمام جماعتیں اپنے اپنے انداز میں ان مسائل کو اجاگر کرتی چلی آرہی ہیں اور مسائل سب مشترک ہیں۔ایک سوال پر نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان کا معاشی بحران این ایف سی نہ ہونے یا دیگر وجوہات کی وجہ سے نہیں بلکہ صوبے میں مالی بدانتظامی کی وجہ سے ہے صوبے کو اس وقت فنانشل مینجمنٹ کی ضرورت ہے سیکرٹری خزانہ سمیت دیگر اہم پوسٹوں پر تیکنیکی مہارت رکھنے والوں کو تعینات ہونا چاہیے کچھ سخت فیصلے کرنے سے صوبے کی مالی پوزیشن میں بہتری آسکتی ہے۔

جب تک ہم نے اپنا مالیاتی نظم و نسق بہتر نہ کیا معاشی بحران اسی طرح برقرار رہے گا این ایف سی ایوارڈ سے شیئر کا ملنا یا نہ ملنا مسئلہ نہیں ہمارے بجٹ کا 80 فیصد تنخواہوں کی مد میں جاتا ہے بجٹ میں سیاسی فائدے ، لوگوں کی حمایت حاصل کرنے اور فیشن کے طور پر غیر ضروری نوکریاں دینے کا سلسلہ بند اور ریونیو دینے والے شعبوں کو ترجیح دی جانی چاہیے ، سرکاری ملازمتوں کے ساتھ ساتھ صنعت کاری کے شعبوں کو بھی توجہ دی جائے ، ٹیکس فری زونز کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی لوگوں کو ملازمتیں مہیا ہوں جب تک پرائیویٹ سیکٹر کو تقویت نہ دی گئی مسائل حل نہیں ہوں گے لوگوں کا روزگار کے حوالے سے انحصار صرف سرکار پر ہی نہیں ہونا چاہیے سرمایہ کاری کے حوالے سے حکومت سمیت سیاسی جماعتوں اور تمام طبقہ فکر مل کر کوشیش کرنی ہوگی ، صوبے میں اضلاع کا قیام بھی ریونیو کو دیکھے بغیر عمل میں لایا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ہر ضلع میں انڈسٹریل زون بنائے گئے ہیں لیکن امن اور استحکام کے فقدان کے باعث لوگ سرمایہ کاری نہیں کرتے ہمیں سرمایہ کاروں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ درست کہ سیاست میں مداخلت رہی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں لانے والے ہم خود سیاستدان ہیں جب تک ہم سیاستدانوں نے اپنی سمت کو درست نہ کیا حالات اسی طرح بد سے بدتر ہوتے جائیں گے جو مسائل سیاستدان حل کرسکتے ہیں وہ کوئی اور حل نہیں کرسکتا لہذا جس کا جو کام ہے اگر وہ ایماندارانہ طریقے سے کرے تو مسائل خود بخود بہتر ہوتے جائیں گے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میرے دور حکومت میں پہاڑوں پر موجود لوگوں اور حکومت نے جنگ بندی کی اور طے یہ ہوا تھا کہ تیل و گیس کے ذخائر کی دریافت میں مقامی لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے گا تاہم او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے زین کوہ میں صوبائی حکومت اور مقامی لوگوں کی رضامندی کے بغیر کام شروع ہوا تو علیحدگی پسندوں نے جنگ بندی کا معاہدہ ختم کیا، بلوچستان کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ سنگین اور انسانی المیہ ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ریکوڈک پر میرا موقف واضح تھا کہ ریفائننگ یہاں ہونی چاہیے جب کیس ایکسڈ میں گیا تب بھی کوشش کی کہ باقی ماندہ علاقے میں کام شروع کیا جائے ریکوڈک پر سب کا موقف واضح ہے اس میں کوئی ابہام کا شکار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی قوتیں غیر سیاسی قوتوں کو معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دیں گی اگر ہم ٹکڑوں میں بٹ کر انتشار کا شکار ہونگے تو وفاق میں ہمارا موقف کوئی نہیں سنے گا ہمارے ساتھ محض مرکز ہی نہیں بلکہ ہم نے خود بھی ذیادتیاں کی ہیں ہمیں خود بھی ٹھیک ہونا ہوگا۔

انہوںنے کہاکہ فوج کو سیاست میں لانے والے سیاستدان ہیں جب تک سیاسی جماعتیں اپنی سمت کو درست نہیں کرتیں حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔