اسٹیٹ بینک نے 5 برس میں مکمل اسلامی بینکنگ نظام رائج کرنا نا ممکن قرار دے دیا

چند بینکوں کو روایتی بینکاری سے اسلامی بینکاری میں تبدیلی میں 5 سال لگے، یہ ایک کمٹمنٹ ہے کہ ہم اسلامی بینکاری کی طرف بڑھیں، اسٹیٹ بینک

Danish Ahmad Ansari دانش احمد انصاری بدھ 7 دسمبر 2022 22:40

اسٹیٹ بینک نے 5 برس میں مکمل اسلامی بینکنگ نظام رائج کرنا نا ممکن قرار ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 07 دسمبر 2022ء) اسٹیٹ بینک نے 5 برس میں مکمل اسلامی بینکنگ نظام رائج کرنا نا ممکن قرار دے دیا۔ چند بینکوں کو روایتی بینکاری سے اسلامی بینکاری میں تبدیلی میں 5 سال لگے، یہ ایک کمٹمنٹ ہے کہ ہم اسلامی بینکاری کی طرف بڑھیں، اسٹیٹ بینک۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سینیٹ خزانہ کمیٹی کو اس بات سے آگاہ کر دیا ہے کہ پاکستان میں صرف پانچ برس میں مکمل اسلامی بینکنگ نظام رائج کرنا نا ممکن ہے، اس میں نہ صرف زیادہ وقت درکار ہے، بلکہ کئی مسائل بھی ہیں۔

سینیٹ خزانہ کمیٹی کے اجلاس کو اسلامی بینکاری پر بریفنگ دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک حکام نے بتایا ہے کہ چند بینکوں کو روایتی بینکاری سے اسلامی بینکاری میں تبدیلی میں 5 سال لگے، یہ ایک کمٹمنٹ ہے کہ ہم اسلامی بینکاری کی طرف بڑھیں، اسلامی بینکاری کےلیے شریعہ اسکالرز کی رائے بھی لینی ہوگی۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ سینیٹ خزانہ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا ہے کہ پاکستان کے بہت سے سرمایہ کار اسلامی بینکاری کی طرف جانا چاہتے ہیں، ہمارے مذہبی عقائد کی وجہ سے ہمیں ضرور اسلامی بینکاری کی طرف جانا ہے مگر اس میں وقت لگےگا۔

سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئندہ وقت میں ڈیجیٹل بینکاری بہت زیادہ بڑھ جائےگی اسے بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، اسلامی بینکنگ کو مرحلہ وار بڑھاتے جانا چاہیے، اسلامک بینکاری میں سود کی اجازت نہیں، سعودی عرب نے سود کو کمیشن کا نام دیا ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نےکہا کہ بینکوں کی نئی برانچوں میں صرف اسلامی بینکنگ ہونی چاہیے۔

واضح رہے کہ پاکستانی آئین کی شق 38 (ف) کے تحت ’ربا‘ کا ’جلد از جلد خاتمہ‘ لازم قرار دیا گیا ہے۔ ربا کا عمومی تصور ایسے سود کا ہے جو کسی قرض کے بدلے حاصل کیا جائے۔ اسے اسلامی بینکاری میں استحصال پر مبنی تصور کیا جاتا ہے اور وفاقی شرعی عدالت کہہ چکی ہے کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ کیا اگلے پانچ برس میں سود سے مکمل طور پر پاک بینکاری رائج کرنا ممکن ہے؟ اس حوالے سے پاکستان کے صفِ اول کے بینکوں میں سے ایک کے اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ مالیاتی نظام کو تبدیل کرنا آسان کام نہیں کیونکہ پاکستان میں فی الوقت قرضوں کے لین دین سے متعلق جو بھی قوانین ہیں وہ روایتی یا کنونشنل بینکاری پر مبنی ہیں۔

اُنھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کہ اسلامی بینکاری کی فنانسنگ بھی ان ہی قوانین کے تحت جاری کی جاتی ہے، تبدیلی یہ کی جاتی ہے کہ روایتی بینکاری میں اسے قرض قرار دیا جاتا ہے جبکہ اسلامی بینکاری میں اثاثے کی ملکیت بینک اور صارف مشترکہ طور پر کر لیتے ہیں اور شراکت داری کے اصول کو اپنایا جاتا ہے۔