عمانی پارلیمنت نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی مخالفت کردی

86 رکنی مجلس شوریٰ نے اسرائیل کے بائیکاٹ کو وسعت دینے کے حق میں ووٹ دیا

Sajid Ali ساجد علی بدھ 28 دسمبر 2022 13:04

عمانی پارلیمنت نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی مخالفت کردی
مسقط ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 28 دسمبر 2022ء ) خلیجی سلطنت عمان کی پارلیمنت نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی مخالفت کردی، عمانی پارلیمنٹ نے صہیونی ریاست سے تعلقات اور رابطوں پر پابندی کے قانون کو وسعت دینے کے لیے ایک ترمیم کے مسودے پر ووٹ دیا، جس کے باعث تل ابیب کی حکومت کو خطے میں تعلقات کو فروغ دینے کی اپنی امیدوں کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق 86 رکنی مجلس شوریٰ یا مشاورتی اسمبلی نے اسرائیل کے بائیکاٹ کے قانون کی پہلی شق میں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جس میں نجی اور عوامی شخصیات کے لیے کسی بھی کھیل، ثقافتی یا اقتصادی رابطے کو شامل کیا جائے، یہ ترمیم خاص طور پر اسرائیلی آباد کاروں کے ساتھ ذاتی طور پر یا آن لائن بات چیت پر پابندی عائد کرتی ہے۔

(جاری ہے)

عمانی ڈبلیو اے ایف نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ اسمبلی کے نائب صدر یعقوب الحریثی نے کہا کہ متعدد قانون سازوں کی طرف سے تجویز کردہ یہ ترمیم صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کو وسعت دے گی، یہ ترمیم اب حتمی ووٹنگ سے قبل مجلس قانون ساز کمیٹی کے ذریعے بحث کے لیے چلی جائے گی۔

عمانی قانون پہلے ہی یہ بتاتا ہے کہ شہریوں کو کسی بھی مقصد کے لیے اسرائیل میں مقیم افراد یا اداروں سے رابطہ کرنے سے روک دیا گیا ہے، چاہے وہ براہ راست یا کسی تیسرے فریق کے ذریعے ہو، مسقط باضابطہ طور پر عرب لیگ کے اس موقف پر قائم ہے کہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر منحصر ہیں۔ اس سال کے شروع میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ عمان اور امریکہ نے خلیج فارس کی ریاست کی فضائی حدود سے گزرنے کے لیے اسرائیلی تجارتی پروازوں کے لیے عمانی منظوری حاصل کرنے کے لیے بات چیت کی، واشنگٹن کی جانب سے مزید عرب ریاستوں کو تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاہم مسقط نے اس کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا۔

ابراہیم معاہدے پر دستخط کرنے کے والے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے علاوہ معاہدے پر دستخط نہ کرنے کے باوجود سعودی عرب نے بھی اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کا اختیار دیا، عمانی وزیر خارجہ سید بدر البوسیدی نے جولائی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والا خلیج فارس کا تیسرا ملک نہیں ہوگا بلکہ انہوں نے و ریاستی حل کی بنیاد پر اپنے ملک کی حمایت کا بھی اعادہ کیا جسے انہوں نے منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کے حصول کی بنیاد قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ سلطنت اسرائیل سے تعلقات کے معاملے پر متحدہ عرب امارات اور بحرین سے خود کو الگ کرنا چاہتی ہے اور اس لیے مستقبل میں تعلقات میں کسی بھی پیشرفت کے لیے مسقط اور القدس کے درمیان علیحدہ اور براہ راست تعلق کی ضرورت ہوگی، مئی میں عمان کے وزیر خارجہ نے فرانسیسی روزنامہ Le Figaro کو بھی بتایا کہ عمان اسرائیل کے ساتھ کھلے عام معمول کے لیے نہیں جائے گا جب تک کہ فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔

عمانی وزیر خارجہ نے کہا کہ عمان ان خلیجی ممالک میں شامل نہیں ہو گا جنہوں نے اسرائیلی قبضے کے باوجود اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان کیا ہے بلکہ عمان فلسطینی عوام کی حمایت کرنے والے اقدامات کو ترجیح دیتا ہے، آنے والے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے 2018 میں عمان کا دورہ کیا اور 1996 کے بعد سلطنت کا سفر کرنے والے پہلے اسرائیلی حکمران بن گئے جہاں انہوں نے اس وقت کے سلطان قابوس بن سعید سے ملاقات کی۔

بتاتے چلیں کہ نیتن یاہو نے اماراتی وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید آل نہیان اور بحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی کے ساتھ ستمبر 2020ء میں وائٹ ہاؤس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی میزبانی میں منعقدہ ایک سرکاری تقریب کے دوران ابراہم معاہدوں پر دستخط کیے تھے، نارملائزیشن ڈیل میں بعد میں سوڈان اور مراکش بھی شامل ہوئے تاہم فلسطینیوں نے ان معاہدوں کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور فلسطینی علاقوں پر دہائیوں سے جاری اسرائیلی قبضے کے خلاف اپنے مقصد سے غداری قرار دیا، فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو۔