Live Updates

وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد پر حکم امتناع میں توسیع

بدھ 11 جنوری 2023 16:42

وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد پر ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جنوری2023ء) لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد پر حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے سماعت کل (جمعرات ) 12 جنوری صبح نو بجے تک ملتوی کر دی،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعلیٰ کے پاس 24گھنٹے 186ارکان کی سپورٹ ہونی چاہیے،کوئی فریق بھی نمبرز کو ہاتھ لگانے کو تیارنہیں،معاملہ اب ایک مناسب وقت سے زیادہ آگے چلا گیا، ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر گورنر کے حکم پر عمل نہیں ہوتا تو پھر اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ کیا ہو گا ،منظور وٹو کیس میں بھی 2دن کا وقت دیا گیا تھا جو مناسب نہیں تھا، اب تو 17دن ویسے بھی گرز چکے ہیں آپ بتائیں اور کتنا مناسب وقت چاہیے۔

ہم کوئی تاریخ فکس کر دیتے ہیں اور گورنر کے آڈر کو موڈیفائی کر دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ روز عدالت عالیہ میں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے وزیر اعلی پنجاب کو وزارت اعلی کے منصب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف کی درخواست پر سماعت کی ۔دیگر ججز میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس عاصم حفیظ اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل تھے ۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس، گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق، وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر سید علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔ کمرہ عدالت میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خاں ،وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و قانونی امور عطا اللہ تارڑ ، لیگی رہنما رانا مشہود احمد خاں ،خلیل طاہر سندھو اور پیر اشرف رسول بھی موجود تھے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ معاملہ حل نہیں ہوا ۔گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق نے کہا کہ یہ اعتماد کا ووٹ لیں گے تو معاملہ حل ہوگا۔عدالت نے گورنر کے وکیل سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا آفر ہے آپ کے پاس جس پر گورنر کے وکیل نے جواب دیا کہ گزشتہ سماعت سے آج تک کافی وقت گزر گیا ہے لیکن اعتماد کا ووٹ نہیں لیا گیا، انہوں نے ہماری آفر نظر انداز کردی ،یہ ان کی بدنیتی ظاہر کو کرتا ہے، عدالت اعتماد کا ووٹ لینے کا وقت مقرر فرما دے۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ درخواست گزار کو یہ لائن کراس کرنا پڑے گی۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے وکیل نے آفر دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کتنے دن کا وقت آپکے لیے مناسب ہوگا ۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم وہ وقت مقرر کردیتے ہیں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ گیارہ جنوری کا تو بہت وقت ہے ابھی تک آپ کے لوگ آگئے ہوں گے۔جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اگر آپ اگر قبول نہیں کرتے تو کل کو گورنر ایک اور نوٹیفکیشن جاری کردیں گے۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم اس درخواست پر میرٹ کے مطابق فیصلہ کر دیتے ہیں، ہم نے تو مناسب وقت دیا ہے۔اس دوران وزیر اعلی پنجاب کے وکیل نے مشاورت کے لیے 30 منٹ کی مہلت کی استدعا کی۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ معاملے پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہورہا ہے ، ہم اس درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کر دیں گے۔اس موقع پر پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے میرٹ پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ میں اس حوالے سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں ،گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہا اور اسپیکر کو خط لکھا، گورنر نے اپنے خط میں لکھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کھو چکے ہیں، گورنر کے حکم کے جواب میں اسپیکر نے رولنگ دی ،اسپیکر کی رولنگ کو تاحال چیلنج نہیں کیا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا، کیا وہ اس عہدے پر قائم رہنے کے لئے اسمبلی کا اعتماد رکھتے ہیں، کیا ابھی تک اتنی بھی تسلی قائم نہیں ہوئی کہ اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے کہ نہیں ۔عدالت نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ ابھی تک وہ مرحلہ بھی آیا ہے کہ نہیں، ہم پھر اس کیس کو میرٹ پر سنتے ہیں۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر گورنر دوبارہ کہہ دے کہ انہوں نے اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی ووٹ نہیں لیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ جو بھی آپ کی گزارشات ہیں، ہم انہیں آج ہی سنیں گے، اگر آپ مناسب وقت کا تعین نہیں کرتے تو پھر ہم کیس کو میرٹ پر سنیں گے۔ گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے بیس کے قریب دن مل چکے لیکن انہوں نے ووٹ نہیں لیا، ہم چاہتے ہیں کہ عدالت گورنر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کی درخواست پر میرٹ پر فیصلہ کرے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ تو کیا آپ اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر قبول نہیں کر رہے، آپ کا اعتراض تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت نہیں دیا۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ منظور وٹو کیس میں بھی 2دن کا وقت دیا گیا تھا جو مناسب نہیں تھا، اب تو 17دن ویسے بھی گرز چکے ہیں آپ بتائیں اور کتنا مناسب وقت چاہیے۔ہم کوئی تاریخ فکس کر دیتے ہیں اور گورنر کے آڈر کو موڈیفائی کر دیتے ہیں۔

جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے پاس پوراموقع تھا کہ اتنے دن میں اعتماد کا ووٹ لے لیتے۔ وزیر اعلی کے پاس 24گھنٹے 186ارکان کی سپورٹ ہونی چاہیے۔ کوئی فریق بھی نمبرز کو ہاتھ لگانے کو تیارنہیں۔ سب سوچ رہے ہیں کہ پہلے جو کرے گا وہ بھرے گا۔ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر گورنر کے حکم پر عمل نہیں ہوتا تو پھر اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ کیا ہو گا اور راستہ کیسے رکے گا، معاملہ اب ایک مناسب وقت سے زیادہ آگے چلا گیا، آئین میں جو وقت کے بارے میں بتایا گیا ہے، اگر معاملے پر کوئی اتفاق نہیں ہو رہا تو ہم کیس کو میرٹ پر سنیں گے۔

چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل نے گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر مسترد کر تے ہوئے کہا کہ اگر گورنر کے پاس پی ٹی آئی کے اکثر ارکان آکر کہتے ہیں کہ انہیں وزیراعلیٰ پر اعتماد نہیں رہا تو پھر گورنر کو حق ہے کہ اعتماد کے ووٹ کا کہے، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لئے مناسب وجوہات نہیں دیں، اگر اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے آئینی اور قانونی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو ہمیں اعتماد کے ووٹ لینے میں کوئی عار نہیں تھی، اگر چھانگا مانگا کی صورتحال بنانی ہے تو پھر اس پر ہمیں اعتراض ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گورنر، وزیر اعلی کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ تو سکتا ہے، کیا آپ اس نکتے پر قانون کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں یا اعتماد کا ووٹ لینے کو تیار ہیں، وزیرِ اعلی کے رہنے کا فیصلہ تو فلور ٹیسٹ پر ہی ہونا ہے۔آخر میں اراکین نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کون وزیرِ اعلی بن سکتا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پرویز الٰہی تو ووٹ لے کر ہی وزیرِ اعلی بنے ہیں۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ سیاسی کشیدگی جاری ہے، سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ پہلے جو کال کرے وہ پھنسے، ہم نے اتفاق رائے سے عدم اعتماد کے ووٹ کی ہدایت کی تھی، آئین پاکستان کے تحت اعتماد کے ووٹ کے لیے کم سے کم تین روز ضروری ہیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا گورنر کے کہنے پر ووٹ لینا ضروری ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر تے ہوئے کہاکہ یہ گورنر کا اختیار ہے وہ وزیرِ اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے، گورنر کو کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وجوہات دینا ضروری نہیں۔اب تو معاملہ مناسب وقت سے باہر آ چکا ہے۔پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ تحریری طور پر تو کچھ نہیں لائے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے سے وزیر اعلیٰ کو تو کسی نے نہیں روکا تھا، تحریر کی کیا ضرورت ہی ۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے، اگر اتفاق رائے نہیں ہے تو ہم اس کا میرٹ پر فیصلہ کریں گے۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کو سنیں گے۔کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ گورنر اچانک صبح اٹھ کر کہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں ،پانچ ماہ قبل وزیر اعلی نے اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھائی تھی ،آئین میں اسمبلی توڑنے کا اختیار منتخب نمائندے یعنی وزیر اعلی کو دیا گیا ہے ،وزیر اعلی گورنر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائز جاری کرے گا اور 48گھنٹے میں اسمبلی تحلیل ہوجائے گی ۔

جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس میں گورنر نے 19دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر گورنر کہتے کہ اعتماد کا ووٹ 10دن میں اعتماد لیں تو پھر کیا ہوتا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 19دسمبر کو پہلے تحریک عدم اعتماد آئی اسکے بیس منٹ بعد گورنر نے بھی اپنا حکم جاری کردیا ،اس ساری کہانی کا مقصد اسمبلی کی تحلیل روکنا تھا ،23 دسمبر کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی گئی۔

جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کہ آپ نے جو اسمبلی رولز پڑھے ہیں اسکے مطابق گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کی تاریخ مقرر کرسکتا ہے۔وکیل پرویز الٰہی نے کہا کہ ووٹ کی تاریخ مقرر کرنے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 130کے شق7کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کے سامنے اپنے دلائل میں کہا کہ گورنر اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے لیکن اجلاس کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار سپیکر کو ہے اور سپیکر پنجاب اسمبلی پہلے سے اجلاس کر رہے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ آئین نے گورنر کو اختیارات دیئے ہیں مگر اس کا بھی طریقہ کار ہے ،گورنر پنجاب اگر وزیر اعلی پنجاب کے اعتماد پر مطمئن نہیں تھا تو اسمبلی اسپیکر کو اجلاس بلوانے کا کہتے ، اسپیکر اسمبلی گورنر کے نوٹیفکیشن کے بعد ممبران کو نوٹسز جاری کرتا ہے مگر موجودہ کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔ سپیکر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے اجلاس بلانے کا وزیر اعلی بھی نہیں کہہ سکتے اور سپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیر اعلی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔

گورنر پنجاب اعتماد کے ووٹ کے لیے دن مقرر نہیں کرسکتا ۔لڑائی دو ہمسایوں کے درمیان ہورہی ہے مگر سزا کسی اور کو دے گئی۔جسٹس عاصم حفیظ ریمارکس دیئے کہ آئین کے تحت گورنر اور سپیکر غیر جانبدار ہوتے ہیں، یہاں گورنر اور سپیکر جماعتوں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں، گورنر پہلے سے جاری سیشن میں اعتماد کے ووٹ کی تاریخ مقرر کر سکتا ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو پھر وزیر اعلی کہے گا کہ میں اعتماد کا ووٹ ہی نہیں لیتا کیونکہ اجلاس جاری ہے۔

سپیکر الگ تاریخ دے سکتا تھا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ گورنر تاریخ نہیں دے سکتا تو اس میں دو صورتیں ہیں، فرض کریں اگر گورنر اعتماد کے ووٹ کی تاریخ نہیں دیتا اور اسپیکر اجلاس 35 دن کے لئے ملتوی کردیتا ہے تو پھر گورنر کیا کرے گا ۔اگر اسمبلی سیشن چل رہا ہو تو پھر بھی اعتماد کے ووٹ کے لیے علیحدہ سے اجلاس بلوانے کی ضرورت نہیں، کیا جاری سیشن کو روک کر وزیر اعلی اعتماد کا ووٹ لے سکتا ہے یا نہیں ۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ آپ کے تمام دلائل کے نچوڑ میں دو چیزیں سمجھے ہیں، ایک آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے مناسب وقت نہیں دیا، دوسرا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ گورنر نے جو نوٹیفکیشن جاری کیا وہ غیر قانونی ہے۔وکیل پرویز الٰہی نے کہا کہ آئین کے تحت گورنر کے پاس اعتماد کے ووٹ کا کہنے کے لیے ایک طریقہ کار ہے، وہ طریقہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے 91ممبران گورنر کو لکھتے کہ انہیں وزیراعلی پر اعتماد نہیں رہا یا پھر ق لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے 6ارکان گورنر کو لکھتے کہ انہیں پرویز الٰہی پر اعتماد نہیں رہا۔

جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کہ اگر ایک وزیر عہدے سے استعفیٰ دے دے تو کیا گورنر اس بنیاد پر اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے۔ جس پر وکیل نے کہا کہ بالکل نہیں ایسی صورت میں گورنر اعتماد کے ووٹ کا نہیں کہہ سکتا۔جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ 186میں سے ایک نکل جائے تو اکثریت ختم تو ہو گئی ناں۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ منظور ووٹو کیس میں بلا آخر عدالت نے کہا تھا کہ 10روز میں اعتماد کا ووٹ لیں۔

پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے منظور ووٹو کیس کا فیصلہ پڑھا ۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ صرف منظور ووٹو کیس کا آخری پہرہ پڑھیں تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ کیا مماثلت ہے۔عدالت کے استفسار پر سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل حیدررسول مرزا کہا کہ سپیکر نے اس پر رولنگ جاری کی تھی۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے سپیکر سے کہا کہ سپیکر کی رولنگ عدالت کے سامنے نہیں ہے، ہم آپ کو بھی سن لیں گے۔

پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کے روبرو اپنے دلائل میں کہا کہ وزیر اعلی پرویز الٰہی کے وکیل کو اعتماد کا ووٹ لینے میں کوئی دقت نہیں، لیکن بات اصول کی ہے۔عدالت نے گورنر پنجاب کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد پر حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے سماعت آج (جمعرات ) 12جنوری صبح نو بجے تک ملتوی کر دی۔پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل جمعرات کو بھی جاری رہیں گے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات