نقیب اللہ محسود کو کالعدم تنظیم سے تعلق کا الزام لگا کر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا،رائو انوار بری ہوگئے ، محسن داوڑ

منگل 24 جنوری 2023 21:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جنوری2023ء) رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا ہے کہ نقیب اللہ محسود کو کالعدم تنظیم سے تعلق کا الزام لگا کر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا، اس قتل کے نتیجے میں ملکی تاریخ کی بڑی عوامی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی ، اس دوران سیاسی کارکنوں پر بے بنیاد مقدمے قائم کیے گئے،24 جنوری کو توقع کے مطابق رائو انوار بری ہوں گے، عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو جائیں تو انتشار ہی جنم لیں گے، عوام انصاف کے لئے لیے دیگر ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے جو ظاہر ہے نہ انصاف نہ ہی شہری حقوق اور نہ ہی مذہب ریاستی بندوبست کیلئے اچھے نتائج دیں گے، انہوں نے ان خیالات کا اظہار اے این پی کے افریاب خان خٹک ، بشریٰ گوہر و دیگر کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ13جنوری 2018 کو جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کو قتل کیا گیا۔ نقیب اللہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ کالعدم تنظیم سے تعلق رکھتے تھے جسے آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا،یہ اپنی نوعیت کا نہ پہلا اور نہ ہی آخری ماورائیعدالت قتل تھا۔ اس قتل کے نتیجے میں اس ملک کی تاریخ کی ایک بہت ہی بڑی عوامی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی جو دہائیوں سے ریاستی جبر اور استحصال کے شکار سابق فاٹا کے عوام نے شروع کی اور اس میں پورے ملک کی وطن دوست جمہوری اور ترقی پسند افراد اور تنظیموں نے شرکت کی اور ان کی آئینی و قانونی مطالبات کی بھرپور حمایت کی۔

اس پوری تحریک کے دوران انتہائی پرامن احتجاجی مظاہرے اور جلسے کیے گئے عدالتوں سے انصاف کی امید باندھی گئی لیکن پہلے دن ہی سے رائو انوار کو جس طرح کا پروٹوکول دیا گیا اس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ امید غلط ہوتی جا رہی ہیں۔ اس دوران سیاسی کارکنوں پر بے بنیاد مقدمے قائم کیے گئے تھے انھیں عدالتوں کے چکر لگا کر تھکایا گیا، اس کی برتری مثالیں علی وزیر ، حنیف پشین، پروفیسر اسمائیل انکی اہلیہ اور دیگر سیاسی قیدیوں کی ہے۔

۔ اسی دوران خڑ کمر، خوست یرنائی کے واقعات سمیت ریاستی تشدد کے بدترین واقعات رونما ہوئے تاہم کسی کو بھی سزا دی گئی نہ ہی انہیں عدالتوں میں گرفتار سیاسی کارکنوں کی طرح پیش کیا گیا نہ ہی کہیں سے لگا کے ان شوکت کے خلاف کوئی سنجیدہ عدالتی کارروائی ہورہی ہے۔ اب 24 جنوری کو پاکستان کے نظام انصاف کی روایتی کارکردگی کی توقع کے مطابق رائو انوار بری ہوں گے،کس کو پیروی کے دوران جس سنجیدگی کا مظاہرہ ہونا چاہیے تھا وہ نہیں دکھائی دیا۔ جہاں عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو جائیں تو وہاں انتشار ہی جنم لیں گے گے عوام انصاف کے لئے لیے دیگر ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے جو ظاہر ہے نہ انصاف نہ ہی شہری حقوق اور نہ ہی مذہب ریاستی بندوبست کیلئے اچھے نتائج دیں گے۔