سال قبل ڈوبنے والی اسرائیلی آبدوز دکار کا معمہ

آبدوز نصف صدی قبل مصر کے ساحل پر ڈوب گئی تھی، پراسرار کہانی نے اسرائیل کو حیرت میں ڈال دیا

بدھ 25 جنوری 2023 12:53

قاہرہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جنوری2023ء) مصری ساحل کے قریب اسرائیلی آبدوز دکارکے ڈوبنے کی 55 ویں برسی کے موقع پر، اسرائیلی فوج نے اس کی تلاش کے لیے کی جانے والی کوششوں اور آپریشنز پر مشتمل ایک ڈائری شائع کی ہے۔ جس سے ایک بار پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آبدوز کے ڈوبنے کا سبب کیا تھا۔ کیا آبدوز کو تباہ کیا گیا یا فنی خرابی تباہی کا باعث بنی۔

یہ پراسرار معمہ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی تاحال حل نہیں ہوسکا۔عرب ٹی وی کے مطابق یہ آبدوز 25 جنوری 1968 کو برطانیہ سے اسرائیل جاتے ہوئے اپنے پہلے سفر کے دوران لاپتہ ہوگئی تھی، شدید تلاش کے باوجود جب سراغ نہ ملا تو تلاش روک دی گئی۔تاہم لاپتہ ہونے کے 31 سال بعد آبدوز کا ملبہ سمندر میں دریافت کر لیا گیا۔ ملبہ حیفا سے 485 کلومیٹر فاصلے پر 3 کلومیٹر کی گہرائی میں سمندر کی تہہ میں موجود تھا۔

(جاری ہے)

اسرائیل نے یہ آبدوز برطانوی بحریہ سے خریدی تھی اور اس کی لانچنگ کے دو ہفتے بعد حیفا کی بندرگاہ پر جاتے وقت اس کے اہلکاروں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔عبرانی میں دکارسے مراد گہرے پانی میں رہنے والی بڑی شکاری مچھلیوں کی ایک قسم ہے۔ یہ آبدوز 87 میٹر لمبی اور 8 میٹر چوڑی تھی اور اس میں تارپیڈو لانچ کرنے کے لیے ٹیوبیں لگائی گئی تھیں۔حادثے کے روز اسرائیل نے آبدوز کی طرف سے ہنگامی کال موصول ہونے کے فورا بعد تلاش شروع کردی تھی مگر کچھ دن بعد اسرائیلی فوج کے آپریشنز ڈیپارٹمنٹ نے اس کے ڈوبنے اور عملے کے 69 ارکان کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔

ٹھیک آٹھ بجے شام کو یافا نامی تجارتی جہاز نے اطلاع دی کہ ایک کمزور، غیر واضح اور نامعلوم سمت سے پیغام موصول ہوا ہے۔ اگلے دن انٹیلی جنس یونٹ نے بتایا کہ آبدوز کی بگڑتی ہوئی فریکوئنسی پر وارننگ سائرن بج رہے تھے۔ مگر یہ واضح نہیں تھا کہ یہ کہاں جا رہی تھی۔پانچویں روز 30 جنوری کو تلاش کرنے والی ٹیم مصر کے قریب پہنچ کر رک گئی کیونکہ اسرائیلی بحریہ کو مصری سرحد کے قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔

اور تلاشی کی کارروائیوں کو مصری ساحل سے دور دوسری سمت موڑنے کا حکم دیا گیا۔مزید دو دن کی تلاش کے بعد آبدوز اور اس کے عملے کی تلاش کی امیدیں دم توڑ گئیں، اسرائیلی حکام نے تلاش کا کام روک دیا، اور مہم میں حصہ لینے والی کشتیاں حیفا بندرگاہ پر واپس آ گئیں۔حادثے کے بعد اسرائیل نے آبدوز کی تباہی میں مصر کا ہاتھ ہونے کا الزام نہیں لگایا تھا۔

مگر 1970 میں الاخبار نامی اخبار نے دعوی کیا کہ آبدوز کو مصر کے ایک جنگی جہاز نے گہرائی میں مار کرنے والے بموں سے تباہ کیا تھا۔ایسا ہی ایک انکشاف عرب میڈیا نے بھی کیا کہ مصری بحریہ کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل محمد سعید خاطر کی جانب سے مصری حکام کو ایک رپورٹ پیش کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ 1974 میں جب انہوں نے بارودی سرنگوں کی صفائی کرتے ہوئے دشمن کے ٹھکانے پر میزائل گرا دیا تھا تو انہیں ایک انگریزی ٹی وی سیٹ، برانڈ "زینت" اچھی حالت میں ملا ہے۔

اس کہانی کی تصدیق مصری بحریہ کے ریٹائرڈ میجر جنرل محمد عبدالمجید عزاب نے 2005 میں ایک پریس کے دوران کی۔ ان کے مطابق مصری ڈسٹرائر طارق نے، جو ان کے عملے کے ساتھ تھا، تربیتی مشن سے واپسی کے دوران "مصری ساحل کے قریبآبدوز "دکار" کو دریافت کیا۔ فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اور اسے بموں سے تباہ کر دیا گیا۔تاہم مصری حکام نے اس کہانی کو اپنانے سے انکار کر دیا کیونکہ تصدیق کے لیے کوئی مادی ثبوت موجود نہیں تھا، اور نہ ہی کبھی سرکاری طور پر اس بات کا اعلان کیا گیا کہ مصری بحریہ نے آبدوز کو ڈبویا تھا۔