مشرقی یروشلم: یہودیوں کی عبادت گاہ کے باہر فائرنگ سے سات افراد ہلاک

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 28 جنوری 2023 14:20

مشرقی یروشلم: یہودیوں کی عبادت گاہ کے باہر فائرنگ سے سات افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جنوری 2023ء) اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز مشرقی یروشلم میں ایک یہودی عبادت گاہ کے باہر ایک فلسطینی بندوق بردار نے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں سات افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔ بعد میں پولیس نے بھی حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

امریکہ اور اسرائیل مل کر خطے اور تاریخ کو بدل سکتے ہیں، نیتن یاہو

اسرائیل کے پولیس کمشنر کوبی شبتائی کا کہنا تھا، ’’فائرنگ کا یہ واقعہ، ’’حالیہ برسوں میں ہمارے سامنے ہونے والے بدترین حملوں میں سے ایک ہے۔

‘‘

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان حملے کا یہ تازہ ترین واقعہ پیش آیا ہے۔ اس واقعے سے ایک روز قبل ہی مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر جنین میں اسرائیلی فوج کی طرف سے کی جانے والی ایک کارروائی کے دوران سات عسکریت پسندوں اور ایک عمر رسیدہ خاتون سمیت نو فلسطینی شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

مسجد اقصیٰ تنازع: سلامتی کونسل کا کسی کارروائی سے گریز

اس فائرنگ سے متعلق ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟

اسرائیلی پولیس اور طبی ماہرین نے بتایا کہ فائرنگ کا یہ واقعہ مشرقی یروشلم کے نواحی علاقے نیوے یاآکوف میں واقع ایک عبادت گاہ کے باہر پیش آیا، جہاں عبادت گزار ہولوکاسٹ کے بین الاقوامی یادگاری دن کے موقع پر جمع ہوئے تھے۔

حکام کا کہنا تھا کہ فائرنگ کرنے کے بعد بندوق بردار کار میں سوار ہو کر فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا تاہم پولیس نے اس کا تعاقب کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران حملہ آور کو بھی ’ہلاک کر دیا گیا۔‘

ابتدائی تفتیش کے مطابق مجرم کی شناخت مشرقی یروشلم سے تعلق رکھنے والے ایک 21 سالہ شخص کے طور پر ہوئی ہے، جس نے تنہا طور پر یہ کام کیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے فائرنگ کے مقام کا دورہ کیا اور صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ سکیورٹی سے متعلق ان کی کابینہ کی میٹنگ کے بعد اس حملے پر سرکاری ردعمل کے بارے میں ’’فوری اقدامات‘‘ کا اعلان کیا جائے گا۔

نیتن یاہو نے اسرائیلی عوام سے یہ بھی کہا کہ وہ خود قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔

ردعمل کیسا رہا ہے؟

امریکی محکمہ خارجہ نے فوری طور پر اس حملے کو ’’نہایت خوفناک‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے صحافیوں سے کہا، ’’ہم اس بظاہر دہشت گردانہ حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ہماری آہنی وابستگی برقرار ہے اور ہم اپنے اسرائیلی شراکت داروں کے ساتھ براہ راست رابطے میں بھی ہیں۔‘‘

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیریئن ژاں پیئر نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی قومی سلامتی کی ٹیم سے کہا ہے کہ وہ ’’زخمیوں کی مدد اور اس ہولناک جرم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے تک لانے میں مدد فراہم کریں۔

‘‘

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اتوار 29 جنوری کو اسرائیل اور مغربی کنارے کا دورہ کرنے والے ہیں اور اس طرح یہ حملہ ان کے دورے سے عین قبل ہوا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز بھی اس وقت اسرائیل اور مغربی کنارے کا دورہ کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے فلسطینی حکام کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ برنز آج ہفتے کے روز فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

لیکن امریکی حکام کی جانب سے اس ملاقات کے حوالے سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

اسرائیل میں جرمنی کے سفیر اسٹیفن زیبرٹ نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام لکھا، ’’نیوے یاآکوف میں ایک یہودی عبادت گاہ کے قریب فلسطینی بندوق بردار کی جانب سے عبادت گزاروں کو قتل کرنے کی خبروں سے گہرا دکھ ہوا۔

ہولوکاسٹ کے یادگاری دن پر یہودیوں کے خلاف یہ ایک بری دہشت گردانہ کارروائی ہے۔ میرا دل ہلاک ہونے والے متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ ہے اور میں زخمیوں کی صحت کے لیے دعا گو ہوں۔‘‘

متحدہ عرب امارات نے بھی عبادت گاہ پر حملے کی مذمت کی ہے۔ ریاستی خبر رساں ادارے (ڈبلیو اے ایم) نے وزارت خارجہ کے ایک بیان کے حوالے سے یہ اطلاع دی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’خاص طور پر قابل نفرت‘‘ ہے کیونکہ ہولوکاسٹ کے عالمی یادگاری دن کے موقع پر عبادت گاہ کے پاس یہ حملہ ہوا۔ انہوں نے اپنے ایک ترجمان کے ذریعے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ’’اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر تشدد کے حالیہ اضافے کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہیں۔‘‘

ص ز/ک م، اب ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)