تعلیم، عدم تشدد اورمکالمہ سے ہم ملک کو آگے لے جاسکتے ہیں ،اسحق ڈار

اٹھارویں آئینی ترمیم پاکستان کی تاریخ میں ایک تحفہ ہے، اگرآمریت کوہمیشہ دفن کرنا ہے توصرف جمہوریت نہیں، مالیاتی نظم وضبط کو بھی نافذ کرنا ہوگا،مالیاتی نظم وضبط کے بغیر جمہوریت توہوگی مگر ہمیں بحرانوں کا سامنا ہوگا، ملک کو آگے لیجانے کیلئے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے، وفاقی وزیر خزانہ کا سیمینار سے خطاب

اتوار 29 جنوری 2023 20:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 جنوری2023ء) وفاقی وزیرخزانہ سینیٹرمحمد اسحاق ڈارنے کہاہے کہ تعلیم، عدم تشدد اورمکالمہ سے ہم ملک کو آگے لے جاسکتے ہیں ، اٹھارویں آئینی ترمیم پاکستان کی تاریخ میں ایک تحفہ ہے، اگرآمریت کوہمیشہ دفن کرنا ہے توصرف جمہوریت نہیں، مالیاتی نظم وضبط کو بھی نافذ کرنا ہوگا،مالیاتی نظم وضبط کے بغیر جمہوریت توہوگی مگر ہمیں بحرانوں کا سامنا ہوگا، ملک کو آگے لیجانے کیلئے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔

اتوارکویہاں باچہ خان اور خان عبدالولی خان سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ باچہ خان اوران کا خاندان ایک نظریاتی جدوجہد کے تسلسل کانام ہے، اس خاندان نے ہمیشہ نظریاتی جدوجہد کو جاری وساری رکھا ہے، خان عبدالولی خان ، اسفندیارولی خان اور ایمل ولی خان اسی جدوجہد کی کڑیاں ہے۔

(جاری ہے)

وزیرخزانہ نے کہاکہ باچہ خان کا عدم تشدد کا نظریہ واضح اورقابل تعریف ہے، اختلافات اوراختلاف رائے ہوتا ہے مگر اس کے باوجود باچہ خان نے جو خدمات انجام دی ہیں اورجو جذبہ وجدوجہد آزادی، حریت اوراصلاحی تحریک انہوں نے چلائی ہے اس سے کوئی کوئی انکارنہیں کرسکتا،میں پوری قوم کی طرف سے عظیم بزرگ اور رلیڈرکی خدمات کوسلام پیش کرتا ہوں۔

وزیرخزانے کہاکہ باچہ خان کے سب سے بڑ ے کام جس نے دنیا کومتاثرکیا وہ ان کی خدائی خدمت گاری کی تحریک تھی ، میں سمجھتا ہوں کہ ہماری سیاست کامحور ہمیشہ عوامی خدمت ہونا چاہیے، باچہ خان افغانستان کی تباہی اوراس کے نتیجہ میں بننے والے حالات پرنہ صرف دل گرفتہ تھے بلکہ انہوں نے جارح قوتوں کوراہ راست پرلانے کی ہرممکن کوشش کی ، یہ تاریخ کاحصہ ہے جسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ باچہ خان نے نورمحمد ترکئی کومشورہ دیا کہ وہ افغانستان کے عوام اورقبائل پرگولہ بارود کا استعمال بند کرکے ان سے مذاکرات کرے، مکالمہ اورمذاکرات کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے کیونکہ تشدد سے کوئی مسئلہ کبھی حل نہیںہوا اورنہ ہوگا ، اگرگروہی اورسیاسی مفادات کی بجائے عدم تشدد کے فلسفہ پرعمل ہوتا توہمارے خطہ کے حالات بہت بہترہوتے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ مقامی اشیا کے استعمال کی جو تحریک باچہ خان نے چلائی تھی وہ لائق تحسین ہے، باچہ خان نے درآمدی اشیا کی بجائے مقامی اشیا کے استعمال کی ترغیب دی اس سے ان کی دانش اوردانائی کا اندازہ ہوتا ہے ، اگر ہم اس پرسختی سے عمل کرے تو پاکستان موجودہ مسائل پرقابوپاسکتاہے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے، اس ناسور نے ہمارے قومی وجود کولہولیان کیا ہے۔

ہماری سیکورٹی فورسز نے اس ناسورکے خاتمہ کیلئے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں ، ہم سانحہ اے پی ایس کو نہیں بھول سکتے، اس واقعہ کے بعد ایک سیاسی عمل کے زریعہ نیشنل ایکشن پلان بنایاگیا، جس کمٹمنٹ کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہونا چاہئیے تھا وہ نہ ہوسکا، اس کانتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان جو مشکل سے 2013 میں فیٹف کے ورچول بلیک سے گرے میں اورپھر وائیٹ آیا وہ 2018 میں دوبارہ گرے میں چلاگیا۔

انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کی لہر میں سیاسی کارکن اورلیڈر نشانہ بنے ہیں ، بشیربلور، محترمہ بے نظیربھٹو، میاں افتخارحسین کے جواں سال بیٹے اورہاروں بلورسمیت ہم نے کئی سانحات دیکھے ، آج بھی ملک کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کی لہر آرہی ہے، اس کا جنگی بنیادوں پرسدباب ہونا چاہئیے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ضرب عضب کیلئے ہم نے کسی سے بھیک نہیں مانگی تھی ، ہم نے اپنے وسائل سے یہ جنگ لڑی۔

جس وقت ضرب عضب کاآغاز ہورہاتھا اس وقت بجٹ منظورہوچکاتھا بطوروزیرخزانہ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا 100 ارب مختص کئے جاسکتے ہیں جس پرمیں نے کہاکہ اس ملک میں امن کیلئے کئی سوارب مختص کرسکتے ہیں ، 4 برس اس آپریشن کے اخراجات حکومت نے برداشت کئے اوراس کے نتیجہ میں دہشت گردی میں کمی آئی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ تعلیم میں امتیازی فرق نہیں ہونا اوریہی باچہ خان کی تعلیم تھی، باچہ خان اوران کے دیگرمدبروں کی سوچ اورجدوجہد بچوں کی تعلیم کا سبق دیتی ہے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ اٹھارویں آئینی ترمیم پاکستان کی تاریخ میں ایک تحفہ ہے جس کے پس منظرمیں میثاق جمہوریت کارفرما تھا۔ میثاق جمہوریت کیلئے 2003 سے کوششیں شروع ہوئی تھیں ، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کی بات لکھی گئی ہے، 1973 کی آئین کی مکمل بحالی چارٹرآف ڈیموکریسی کے مینڈیٹ میں شاملہے۔انہوں نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم اتفاق رائے سے ہوئی تھی، ہماری 100 سے زیادہ میٹنگز ہوئی تھیں، وسائل کی تقسیم پرجامع انداز میں کام ہوا، سب سے آخری کام این ڈبلیو ایف پی کے نام میں تبدیلی کا تھا ، اس پرمیں نے اسفندیارولی خان سے تین روز تک بات چیت کی ، ہمارے پاس پانچ نام تھے، یہ کریڈٹ اسفندیارولی خان کو جاتاہے کہ انہوں نے اپنے صوبہ کانام فائنل کیا اور اس کے بعد اٹھارویں آئینی ترمیم منظورہوئی۔

اسحاق ڈارنے کہاکہ ہمیں اپنے وسائل کے اندررہنا ہوگا، اگرآمریت کوہمیشہ دفن کرنا ہے توصرف جمہوریت نہیں بلکہ مالیاتی نظم وضبط کو بھی نافذ کرنا ہوگا،مالیاتی نظم وضبط کے بغیر جمہوریت توہوگی مگر ہمیں بحرانوں کا سامنا ہوگا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ مسلم لیگ ن کے گزشتہ دوراقتدارمیں مالیاتی ڈسپلن کی سزامیں انہوں نی5 سال جلاوطنی کی صورت میں کاٹی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ وسائل اللہ کی امانت ہے۔ 2013 تک وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈ 43 ملین روپے تھی، میں نے وزیراعظم نواز شریف کو بتایا کہ مالیاتی نظم وضبط کیلئے ہمیں اسے کم کرنا ہوگا ،وزیراعظم نوازشریف نے اسے زیروکردیا تھا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ملک کو آگے لیجانے کیلئے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 2018 میں ہمارا مجموعہ قرضہ اورادائیگیاں 30 ہزار ارب روپے تھی ،اس میں 25 ہزار ارب روپے کا قرضہ تھا۔

ماضی کی حکومت نے وعدہ کیاتھا کہ وہ قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کم کریں گی مگر اس کی بجائے سابق حکومت 25 ہزار ارب کو 44 ہزار 500 ارب اور مجموعی قرضہ وادائیگیوں کو 55 ہزار ارب روپے پرلے گئی۔ گزشتہ چاربرس ملکی تاریخ میں بدترین مالیاتی ڈسپلن کا دوررہاہے ، اس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں، ہمارے پاس کوئی جادوکی چھڑی نہیں کہ ہلائیں گے تو سارے کام سیدھے ہوجائیں گے تاہم حکومت نے اقدامات کاسلسلہ شروع کیا ہے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ اگر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو تو مالیاتی نظم وضبط لازمی قراردینا ہوگا ، اگراقتصادی بحرانوں سے نمٹنا ہے توبڑے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے اوربیرونی غلامی سے آزادی حاصل کرنا ہوگی ، اندرونی معاملات منیج ہوسکتے ہیں مگر بیرونی عوامل سے قوم سے آزادکرنا ہوگا، تمام سیاسی جماعتوں کوفیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کوخو داراورترقی یافتہ ملک بنانا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم بحرانوں سے گزررہے ہیں گزشتہ پانچ سال میں مس منیجمنٹ سے مکمل تباہی ہوئی ہے ، شرح نمو، فی کس آمدنی اورجی ڈ ی پی کے اعدادوشمار سے اس تباہی کا اندازہ ہوجاتاہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس تباہی کو نہ صرف قابو میں لائیں بلکہ ملک کوترقی کی راہ پرگامزن کریں گے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ 2016 میں پاکستان کی معیشت 24 ویں بڑی معیشت تھی اور 2030 میں پاکستان کے گروپ 20 میں شامل ہونے کی باتیں ہورہی تھی ، پانچ سال کی تباہی اورکچھ تجربات نے پاکستان کو اس نہج پرلاکھڑا گیا کہ ہماری معیشت 47 ویں نمبر پرآگئی ہے ، میرا دل خون کے آنسو رورہاہے کہ اگر سابق حکومت ہمارے دورکے تسلسل کو جاری رکھتی تو یہ حالات نہ دیکھنا پڑتے۔

انہوں نے اسفندیارولی کی صحت یابی کی دعاکی اورکہاکہ تعلیم، عدم تشدد اورمکالمہ سے ہم ملک کو آگے لے جاسکتے ہیں۔