گوجرانوالہ میں 12 سالہ بچے نے فائرنگ کرکے ماں کو قتل کردیا

مقتولہ نازیہ گھر سے نکلی ہی تھی کہ بیٹے نے گولیاں چلادیں۔ پولیس نے 12 سالہ ملزم ساون سلیم کو حراست میں لے لیا

Danish Ahmad Ansari دانش احمد انصاری بدھ 1 فروری 2023 22:05

گوجرانوالہ میں 12 سالہ بچے نے فائرنگ کرکے ماں کو قتل کردیا
گجرانوالہ (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ یکم فروری 2022ء) گوجرانوالہ میں سیٹلائیٹ ٹاؤن میں 12 سالہ بچے نے فائرنگ کرکے ماں کو قتل کردیا۔ مقتولہ نازیہ گھر سے نکلی ہی تھی کہ بیٹے نے گولیاں چلادیں۔ پولیس نے 12 سالہ ملزم ساون سلیم کو حراست میں لے لیا۔ پولیس کے مطابق بیٹے نے ماں کو غیرت کے نام پر قتل کیا ہے۔ ملزم نے ابتدائی بیان میں پولیس قتل کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں خواتین کو جن مسائل کا سامنا ہے وہاں غیرت کے نام پر قتل سر فہرست ہے۔ دنیا میں غیرت کے نام پر ہو نے والے قتل کے کیسز کا پانچواں حصہ پاکستان میں ہوتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1000 خواتین کا غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تعداد غیر متعین ہے، کیونکہ بہت سے معاملات کبھی بھی رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

زیادہ تر جن وجوہات کو بہانہ بنا کے یہ قتل کیے جاتے ہیں ان میں نا قابل قبول تعلقات، غیر موزوں لباس، زبان درازی، پسند کی شادی یا گھر والوں کی مرضی سے شادی سے انکار، طلاق کا مطالبہ، یا دیگر ”نا زیبا“ حرکات شامل ہیں۔ جب کہ بہت سی ایسی نوعیت کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جب ایک لڑکی نے پسند کی شادی کر لی اور اسے بعد میں خاندان کے افراد کی طرف سے قتل کر دیا گیا۔

غیرت کے نام پر قتل کے یہ واقعات اکثر اپنا جرم چھپانے کے لیے ہی کیے جاتے ہیں ایک سماجی ترقی کی تنظیم کے مطابق 2020 میں پاکستان میں آنر کلنگ کے 2256 واقعات پیش آئے۔ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1 ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل جبکہ 21 فیصد لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے، مگر پاکستان میں خواتین کیخلاف جرائم کی شرح سے متعلق حتمی اعدادوشمار اب بھی مبہم ہیں۔

جب تک ہمیں واقعات کی شرح کا پتا نہیں چلے گا، ہم اس معاملے کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس حوالے سے این سی ایس ڈبلیو نے ایک سروے کروانے کی تجویز دی ہے، امید ہے کہ وہ گرمیوں کے بعد سے شروع ہو جائے گا۔ خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح انتہائی تشویشناک ہے۔ خواتین کو کبھی غیرت کے نام پر قتل تو کبھی سوارا کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہیں۔

کئی خواتین کی پولیس تک رسائی نہیں ہے اور ایسے کیسز کا مقامی جرگے میں فیصلہ ہو گیا تو ان کا کہیں پر دستاویزی شکل میں اندراج نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود اگر آپ کسی بھی سال کے چھ ماہ کا ڈیٹا نکال لیں تو اس میں 40 فیصد جرائم خواتین اور بچیوں کیخلاف یا ان سے متعلقہ ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے خلاف اٹھنے والا ہاتھ خود روکنا ہوگا۔

سماجی ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے آئندہ کنونشن کے ذریعے پاکستان میں بھی خواتین سے متعلق قانون سازی کی راہ ہموار ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کیخلاف جرائم سے متعلق قومی سروے کا فیصلہ احسن اقدام ہے کیونکہ قوانین پر عملدرآمد اور مستقبل کی منصوبہ کے لئے درست اعدادوشمار ضروری ہیں۔