تجارتی، اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے لیے روابط بڑھائے جائیں، انڈونیشین قونصل جنرل

کاروبار،سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے جامع آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کئے جائیں، صدر کراچی چیمبر

ہفتہ 4 فروری 2023 18:18

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 فروری2023ء) انڈونیشیا کے قونصل جنرل ڈاکٹر جون کونکورو ہادیننگراٹ نے مستقبل میں اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے انڈونیشیا اور پاکستانی نوجوانوں اور بچوں کو جوڑنے کے علاوہ کاروباری برادریوں کے درمیان بہتر روابط کے ذریعے انڈونیشیا اور پاکستان کے درمیان موجودہ تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

اس مقصد کے لیے، انڈونیشیا پاکستان یوتھ فورم ہماری نوجوان نسل کو ایک متحرک پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے کھولا گیا ہے جو کہ مواقع پیدا کرنے کے لیے راہنمائی کرے گا، جبکہ ایک اور فورم انڈونیشیا پاکستان چلڈرن فرینڈشپ بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ ہمارے بچے ایک دوسرے کے بارے میں مزید جان سکیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے دوران ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر کے سی سی آئی کے صدر محمد طارق یوسف، سینئر نائب صدر توصیف احمد، نائب صدر حارث اگر، چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز اینڈ ایمبیسیز لائزن سب کمیٹی ضیاء العارفین، سابق صدر مجید عزیز، سابق نائب صدر شمس الاسلام خان اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔.انڈونیشین قونصل جنرل نے کے سی سی آئی کی جانب سے انڈونیشین تاجر برادری کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ انڈونیشین قونصل خانہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاستدانوں اور سرکاری عہدیداروں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرتا ہے لیکن وہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے نجی شعبے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

انڈونیشیا اور پاکستان متنوع ثقافتوں اور بڑی آبادی کے ساتھ مجموعی طور پر بہت سے مواقع کے ساتھ ایک بڑی مارکیٹ ہیں۔انڈونیشیا پاکستان تعلقات کو حقیقی، عملی اور نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے، انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ موجودہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے کاروباری برادریوں کو باقاعدگی سے ایک دوسرے سے ملنا چاہیے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کے تجارتی وفد کو تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کے لیے انڈونیشیا کا دورہ کرنا چاہیے اور اس حوالے سے انڈونیشیا کا قونصل خانہ مکمل طور پر سہولت فراہم کرے گا۔

انڈونیشیا کے قونصل خانے کو پاکستان کے ساتھ کاروبار کرنے کے حوالے سے بہت سے سوالات موصول ہو رہے ہیں لہذا یہ مواقع ضائع نہ کئے جائیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان تجارت کا حجم گزشتہ سال 3 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہو گیا ہے جو کہ 2021 کے مقابلے میں 28 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ڈاکٹر جو ن نے کہا کہ انڈونیشیائی سفارت خانہ اور کراچی کا قونصل خانہ مزید بات چیت کی امیدرکھتا ہے اور اقتصادی و تجارتی شعبوں میں حقیقی تعاون کے خواہشمند ہیں تاکہ موجودہ تجارتی حجم کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔

پاکستان کی درآمدات زیادہ تر پام آئل اور کوئلے تک محدود رہتی ہیں جبکہ انڈونیشیا بنیادی طور پر پاکستان سے ٹیکسٹائل، کھیلوں کے لباس اور زرعی مصنوعات درآمد کرتا ہے لہذا مزید مصنوعات کے تبادلے کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا، جو اب آسیان کی سربراہی کر رہا ہے، آسیان کے ساتھ پاکستان کے رابطوں کو بڑھانے کا خواہاں ہے جو کہ سب سے بڑے علاقائی تعاون ہے اور 600 ملین سے زائد آبادی کے ساتھ ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔

پاکستانی کاروباری برادری آسیان ممالک کو سامان بھیجنے کے لیے انڈونیشیا کو پیداواری بنیاد کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔سماجی اور ثقافتی تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انڈونیشیا کی جامعات اور صوبہ سندھ کی یونیورسٹیوں کے درمیان سات مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں جبکہ انڈونیشیا میں سب سے زیادہ سکالر شپ حاصل کرنے والوں کی تعداد گزشتہ سال پاکستان سے تھی۔

قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر محمد طارق یوسف نے انڈونیشین قونصل جنرل کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور انڈونیشیا کو کاروبار اور سرمایہ کاری کے مواقع سے مزید فائدہ اٹھانے کے لیے ایک جامع آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے موجودہ انڈونیشیا پاکستان ترجیحی تجارتی معاہدے کو اگلی سطح پر لے جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ سیاحت اربوں ڈالر کی صنعت ہو سکتی ہے۔

پاکستان کا منظر نامہ منفرد اور متنوع ہے، جس میں شمالی علاقوں میں متعدد پرکشش مقامات اور تاریخی اور مذہبی مقامات ہیں جو انڈونیشیا اور باقی دنیا سے آنے والے مہم جوئی اور کوہ پیماؤں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کو صوبائی سطح پر سیاحت کی ترقی کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے، ثقافتی سرگرمیوں کے تبادلے اور بین ملکی سیاحت کے فروغ کے لیے نجی شعبوں کو شامل کرتے ہوئے ممکنہ سیاحتی مقامات کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان انڈونیشیا کی کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری اور کاروباری مارکیٹ کے حجم،ا سٹریٹجک محل وقوع اور سی پیک کی وجہ سے بہت اہم ہے جو انڈونیشین کمپنیوں کو زبردست مواقع فراہم کر سکتا ہے۔دونوں ممالک کی کاروباری برادری پام آئل درخت لگانے، اسلامی مالیات، حلال خوراک، توانائی، کم لاگت کے مکانات، انفراسٹرکچر کی ترقی، ٹیلی کمیونیکیشن اور تعلیم وغیرہ میں مشترکہ منصوبے بھی شروع کر سکتی ہے۔ ہمیں مشترکہ بزنس فورم قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ بھی لینا چاہئے اورزراعت، ٹیکسٹائل، فوڈز، فارماسیوٹیکل، چمڑے اور توانائی کے شعبوں میں انڈونیشی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔