افغانستان بشام حملے کے منصوبہ سازوں کو حوالے کرے، پاکستان کا مطالبہ

DW ڈی ڈبلیو پیر 27 مئی 2024 11:00

افغانستان بشام حملے کے منصوبہ سازوں کو حوالے کرے، پاکستان کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2024ء) پاکستان میں سیکورٹی سے متعلق اعلی عہدیداروں نے اتوار کے روز کہا کہ بشام میں 26 مارچ کو چینی انجینئروں پر ہونے والے خودکش حملے میں، افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قیادت اور غیر ملکی دشمن کی خفیہ ایجنسیاں ملوث تھیں۔

پاکستان کے بشام میں 'گھناؤنا حملہ بزدلانہ دہشت گردی ہے' سلامتی کونسل

لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اور اسے پاکستان میں مقیم ہینڈلرز اور سہولت کاروں کی مدد سے انجام دیا گیا۔

اس حملے میں چین کے پانچ انجینئرز اور ان کا ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

پاکستان: چینی انجینئرز پر مہلک حملے کے بعد چینی ڈیم پراجیکٹ دوبارہ کھول دیا گیا

انہوں نے مزید کہا کہ حملہ ''مکمل طور پر'' افغانستان سے کیا گیا تھا اور اس کا منصوبہ خاص طور پر پاکستان میں چینی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کا تھا۔

چینی انجینئرز کو امریکی ہیلی کاپٹر تک رسائی نہیں دی، پاکستان

حملے میں ملوث افراد کی حوالگی کا مطالبہ

وزیر داخلہ محسن نقوی نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''ٹی ٹی پی کی قیادت نے اس حملے کی منصوبہ بندی ایک اہم منصوبے کے طور پر کی اور دشمن کی خفیہ ایجنسیوں نے انہیں اس حملے کے لیے بھاری قیمت بھی ادا کی۔

''

پاکستان میں حالیہ حملوں میں افغانوں کے ملوث ہونے کے دعوے غیر ذمہ دارانہ ہیں، طالبان

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ طالبان کی عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے رہنماؤں، بشمول اس کے سربراہ نور ولی محسود کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرے، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات برقرار رہیں۔''

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی عبوری حکومت بختیار شاہ، قاری عبداللہ اور خان لالہ نامی تینوں مبینہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود اور اس کے مالاکنڈ کے کمانڈر عظمت اللہ سمیت کالعدم گروپ کی پوری قیادت کو گرفتار کیا جائے۔

چینی کارکنوں کی ہلاکت: پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا حکم

انہوں نے کہا، ''ہم افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو گرفتار کریں، ان پر مقدمہ چلائیں یا انہیں ہمارے حوالے کر دیں۔''

یکطرفہ کارروائی کی تنبیہ

اسلام آباد افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی کی قیادت کے خلاف کارروائی کے لیے کابل پر کافی دنوں سے زور ڈالتا رہا ہے، تاہم ابھی تک اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں اور ان تازہ انکشافات سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے مزید کشیدہ ہونے کی توقع ہے۔

خود کش دھماکے میں ہلاک ہونے والے پانچ چینی انجینیئرز کی لاشیں چین روانہ

پاکستان کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت نے عسکریت پسندوں کی ان محفوظ ٹھکانوں سے ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے ہیں۔

چینی تفتیش کار خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے پاکستان میں

اس کے بر عکس سن 2022 کے اواخر میں افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات کے خاتمے کے بعد سے ٹی ٹی پی کی جانب سے ہونی والی پرتشدد سرگرمیوں میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔

داسو میں ڈیم بنانے والی چینی کمپنی کے کیمپ آفس میں آتش زدگی

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا، ''پاکستان نے یہ مسئلہ افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ اٹھایا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ وہاں سرگرم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، لیکن ابھی تک، ہمیں اس کا کوئی اچھا نتیجہ نہیں ملا ہے۔''

داسو بس حملے میں افغان اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں، پاکستان

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد ''عبوری افغان حکومت کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

''

جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اگر افغان حکومت تعاون نہیں کرتی ہے تو پھر پاکستان کیا کرے گا؟ اس پر محسن نقوی نے کہا کہ ''پھر حکومت یکطرفہ فیصلہ کرے گی۔''

واضح رہے کہ پاکستان نے بشام میں چینی انجینئروں پر دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا، جس کی تفتیش کے بعد یہ انکشافات سامنے آئے ہیں۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے بشام میں 26 مارچ کو ایک ڈیم کے مرکزی تعمیراتی مقام پر کام کرنے والے چینی ورکروں کی گاڑی پر ہونے والے خوُد کش حملے میں پانچ چینی کارکنوں سمیت گاڑی کا پاکستانی ڈرائیور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔

اس واقعے کے دوسرے روز ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کی مذمت کرتے ہوئے تمام رکن ممالک پر زور دیا گیا تھا کہ وہ خیبر پختوانخواہ کے شہر بشام میں ہونے والے اس حملے کے ذمہ داروں کو پکڑنے میں پاکستان اور چین کے ساتھ فعال تعاون کریں۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)