اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اکتوبر 2024ء) قدرتی ماحول کی فلاح و بہود سے متعلق ایک بین الاقوامی ادارے ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے جمعرات کے روز کرہ ارض پر زندگی سے متعلق جو نئی رپورٹ جاری کی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ سن 1970 کے بعد سے جانوروں کی نسلوں کی جنگلی آبادی میں 70 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔
بھیڑیوں کے شکار کی اب اجازت ہونا چاہیے، جرمن صوبوں کا یورپی یونین سے مطالبہ
اس رپورٹ کے مطابق حیاتیاتی تنوع کی مناسبت سے بعض انتہائی حساس علاقوں، جیسے لاطینی امریکہ اور کیریبیئن میں، جنگلی حیات میں کمی کی یہ تعداد 95 فیصد کے قریب ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر جنرل کرسٹن شوئٹ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ "ہم جو تصویر بنا رہے ہیں وہ ناقابل یقین حد تک تشویشناک ہے۔
(جاری ہے)
"
کتوں کے ذریعے غیر قانونی شکار، کتا عدالت کے کٹہرے میں
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ "اچھی خبر یہ ہے کہ ہم ابھی اس نقطہ سے نہیں گزرے ہیں کہ واپسی نہ ہو سکے۔" انہوں نے جنگلی حیات کی پائیداری بڑھانے کے لیے حکومت اور عوام کی کوششوں اجاگر کرنے کی بات کہی۔
حیوانوں میں وائرس کی آٹھ لاکھ اقسام سے انسانوں کو خطرہ
تحفظ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایمیزون بہت اہم ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف میں چیف کنزرویشن افسر داؤدی سنبا کا کہنا ہے کہ "صرف جنگلی حیات کے بارے میں ہی نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی زندگی کو برقرار رکھنے والے ضروری ماحولیاتی نظام کے بارے میں ہے۔"
انہوں نے ایمیزون میں جنگلات کی کٹائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسی، "تبدیلیاں، انسانیت کے لیے تباہ کن نتائج کے ساتھ، ناقابل واپسی ہو سکتی ہیں۔
" انہوں نے کہا کہ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو جو، "یہ اہم ماحولیاتی نظام جوابھی کاربن کو جذب کرنے کا کام کرتا ہے، کاربن کے منبع میں تبدیل ہو سکتا ہے۔"تیندوے کی انتہائی نایاب نسل پاکستان میں
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ حقیقت میں زمین پر تمام زندگیوں کو برقرار رکھنے کی کلید ایمیزون کے بارانی جنگلات موسمیاتی تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی سے اس قدر متاثر ہو رہے ہیں کہ اب معاملہ "ٹپنگ پوائنٹ" تک پہنچ رہا ہے، جس سے پورے علاقے کو خشکی سے در چار ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری کے لیے پرندوں، دودھ دینے والے جانوروں، امبیبیئنز، رینگنے والے جانوروں اور مچھلیوں سمیت تقریباً 5000 اقسام میں سے 35,000 جنگلی آبادی میں رہنے والی نسلوں کی نگرانی گی گئی۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیق کے مطابق اس میں اوسطاً تقریباً 73 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)