غزہ جنگ بندی: روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کا پہنچنا ممکن ہوگا، ڈبلیو ایچ او

یو این ہفتہ 18 جنوری 2025 00:30

غزہ جنگ بندی: روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کا پہنچنا ممکن ہوگا، ڈبلیو ایچ ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 جنوری 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے امید ظاہر کی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد ضرورت مند لوگوں کو بڑے پیمانے پر انسانی امداد پہنچائی جا سکے گی جبکہ ادارے نے علاقے میں ادویات اور طبی سازوسامان فراہم کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقے (او پی ٹی) میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر رچرڈ پیپرکورن نے کہا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں امدادی سامان کے روزانہ 500 تا 600 ٹرک غزہ میں بھیجنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

امداد کی یہ مقدار 7 اکتوبر 2023 سے پہلے غزہ میں آنے والے امدادی سامان کے مساوی ہو گی جبکہ ان دنوں روزانہ صرف 40 تا 50 ٹرک مدد لے کر علاقے میں آ رہے ہیں۔

عارضی ہسپتالوں کے قیام کا منصوبہ

علاقے میں بڑے پیمانے پر امداد کی فراہمی اتوار سے شروع ہو جائے گی۔

(جاری ہے)

ادارے نے مختلف جگہوں پر عارضی مقاصد کے لیے کلینک اور چھوٹے ہسپتال قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جن کے مختلف حصے غزہ میں لا کر جوڑے جائیں گے اور بعد ازاں انہیں پہلے سے موجود طبی سہولیات کا حصہ بنا دیا جائے گا۔

اس طرح ہنگامی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔

ڈاکٹر پیپرکورن نے کہا ہے کہ غزہ میں بیماریاں زور پکڑ رہی ہیں اور قحط پھیلنے کا سنگین خطرہ موجود ہے جبکہ 12 ہزار شدید زخمی اور بیمار لوگ بیرون ملک علاج کے منتظر ہیں جن میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے۔جنگ بندی بہت سی امیدیں لائی ہے لیکن خوراک، ایندھن اور طبی سازوسامان کی شدید قلت کے باعث غزہ کے لوگوں کو بہت بڑے مسائل درپیش ہیں۔

امدادی ادارے متنبہ کرتے آئے ہیں کہ غزہ میں انسانی بحران تباہ کن سطح پر پہنچ چکا ہے۔ مقامی طبی حکام کے مطابق، اکتوبر 2023 کے بعد علاقے میں 46 ہزار شہری ہلاک اور ایک لاکھ 10 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں جن میں بہت سے ایسے ہیں جنہیں دائمی جسمانی معذوری کا سامنا ہے۔

UN News
غزہ کا الشفاء میڈیکل کمپلیکس بمباری کا نشانہ بننے کے بعد کھنڈر بنا ہوا ہے۔

ہنگامی طبی اقدامات

غزہ میں طبی نظام تقریباً تباہ ہو چکا ہے جہاں 36 میں سے چند ہسپتال ہی کسی حد تک فعال رہ گئے ہیں۔ طبی تنصیبات کو بدستور حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صحت کی سہولیات پر 664 حملے ہو چکے ہیں جن میں شہریوں کے علاوہ طبی کارکنوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق، لوگوں کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجے جانے کا عمل تکلیف دہ حد تک سست ہے۔

گزشتہ سال نومبر اور دسمبر میں 1,200 افراد کا بیرون ملک علاج کرانے کے لیے درخواستیں دی گئی تھیں جن میں سے اسرائیلی حکام نے صرف 29 کی منظوری دی۔

ڈاکٹر پیپرکورن نے کہا کہ جنگ بندی عمل میں آنے کے بعد 'ڈبلیو ایچ او' غزہ میں 60 یوم کے لیے ہنگامی طبی کارروائیوں کا منصوبہ شروع کرے گا۔ اس منصوبے کے تحت طبی خدمات کی فراہمی کو وسعت دی جائے گی، عارضی کلینک قائم کیے جائیں گے اور ضروری طبی خدمات بحال ہوں گی۔

اس کے علاوہ، غذائی قلت پر قابو پانے، بیماریوں کے پھیلاؤ کی نگرانی کا نظام بہتر بنانے اور ایسے علاقوں میں طبی سازوسامان کی فراہمی کے اقدامات بھی کیے جائیں گے جہاں اب تک رسائی مشکل رہی ہے۔

© UN Women/Samar Abu Elouf
ایک فلسطینی خاتون غزہ کے نصر ہسپتال پر اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والے نومولود بچے کی میت اٹھائے ہوئے جا رہی ہیں۔

10 ارب ڈالر کی ضرورت

'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق، غزہ میں تباہ شدہ طبی نظام کی تعمیرنو کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، زندگی کے مزید نقصان سے بچنے اور طبی نظام کو فعال رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر عالمی برادری کی مدد بھی درکار ہو گی۔ ادارے نے غزہ میں خوراک، پانی، طبی سازوسامان، ایندھن اور ہسپتالوں میں جنریٹر کے فاضل پرزہ جات کی فوری فراہمی یقینی بنانے کے لیے کہا ہے۔

ڈاکٹر پیپرکورن کا کہنا ہے کہ فوری طبی ضروریات سے نپٹنے کے علاوہ بڑی مقدار میں انسانی امداد بھی درکار ہے۔ اس ضمن میں خوراک، صاف پانی اور پناہ کی فراہمی بنیادی ترجیحات ہیں۔ فی الوقت عالمی امدادی اداروں کو غزہ میں انتہائی مشکل اور خطرناک حالات کا سامنا ہے اور امید ہے کہ جنگ بندی سے لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے گی۔