Live Updates

اصلاحات اور عالمی مدد شام کو مشکل حالات سے نکال سکتے ہیں، یو این ادارے

یو این اتوار 26 جنوری 2025 04:30

اصلاحات اور عالمی مدد شام کو مشکل حالات سے نکال سکتے ہیں، یو این ادارے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 جنوری 2025ء) شام کو سنگین معاشی حالات کا سامنا ہے جس کی نصف آبادی شدید غربت کا شکار ہے تاہم اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اصلاحات پر عملدرآمد اور عالمی برادری کی مدد سے ملک کو حالیہ بدترین حالات سے نکالا جا سکتا ہے۔

مغربی ایشیا کے لیے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (ایسکوا) اور ادارے کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی حالیہ مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی معیشت دو تہائی حد تک سکڑ گئی ہے اور کرنسی کی قدر میں متواتر کمی ہو رہی ہے۔

Tweet URL

رپورٹ بعنوان 'شام دوراہے پر: مستحکم تبدیلی کی جانب' کے مطابق، 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ملک کے جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) میں 64 فیصد تک کمی آ گئی ہے۔

(جاری ہے)

2023 کے مقابلے میں شامی پاؤنڈ کی قدر تقریباً دو تہائی حد تک گھٹ گئی ہے جس سے گزشتہ سال مہنگائی میں 40 فیصد تک اضافہ ہوا۔ برآمدات کبھی شام کی معاشی ترقی میں خاص اہمیت رکھتی تھیں جو اب بڑی حد خوراک جیسی بنیادی ضرورت کی چیزوں تک محدود ہو گئی ہیں جبکہ صنعتی سازوسامان کی تجارت میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔

'ایسکوا' کی ایگزیکٹو سیکرٹری رولا دشتی نے کہا ہے کہ شام کو تقریباً 15 سال سے بحرانی حالات کا سامنا ہے اور اب یہ اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔

یا تو اسے تعمیرنو اور مفاہمت کی راہ اپنانا ہو گی یا مزید ابتری کا شکار ہو جائے گا۔

انسانی تباہی

رپورٹ کے مطابق، شام میں ایک کروڑ 67 لاکھ لوگ یا تقریباً دو تہائی ملکی آبادی کو کسی نہ کسی طرح کی انسانی امداد درکار ہے۔ 70 لاکھ لوگ بے گھر ہیں اور شدید غذائی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دنیا بھر میں ترقیاتی مسائل سے متعلق 'ایسکوا' کے تازہ ترین اشاریے میں شام 160 ممالک میں سے 158ویں درجے پر آتا ہے جس سے ملک کو انتظامی و انصرام، ماحولیاتی انحطاط اور بڑے پیمانے پر پھیلی غربت کے حوالے سے درپیش شدید مسائل کا اندازہ ہوتا ہے۔

بحالی کی راہ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کو تعمیرنو، سرکاری اداروں میں اصلاحات اور عالمی امداد کی ضرورت ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں 2030 تک اس کے جی ڈی پی میں 13 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

تاہم، یہ ترقی جی ڈی پی کو رواں دہائی کے اختتام پر قبل از جنگ دور کے مقابلے میں 80 فیصد تک ہی بحال کرے گی جبکہ فی کس جی ڈی پی 2010 کے مقابلے میں نصف حد تک بحال ہو سکے گا۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ جی ڈی پی کو جنگ سے پہلے کے دور کی سطح تک لانے کے لیے آئندہ مزید چھ سال (2036) تک 5 فیصد کی شرح سے ترقی درکار ہو گی۔

خدشات اور امکانات

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ متواتر عدم استحکام، کمزور حکومت اور ناکافی مالی وسائل کے باعث معاشی جمود اور غربت برقرار رہنے کا خدشہ ہے۔

اگر ملک میں مزید مسلح تنازعات اور تقسیم نے جنم لیا تو 2030 تک اس کے جی ڈی پی میں سالانہ 7.68 فیصد تک کمی آئے گی اور انسانی بحران اور علاقائی سلامتی کو درپیش مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام میں استحکام آنے کے نتیجے میں اس کے ہمسایہ ممالک اردن، لبنان اور دیگر پر بھی مثبت اثرات ہوں گے اور سرحدیں کھولے جانے اور تجارتی راستوں کی بحالی سے سبھی کے مشترکہ جی ڈی پی میں بھی ترقی ہو گی۔ لیکن، عدم تحفظ کی صورتحال برقرار رہنے کے نتیجے میں غیرقانونی تجارت میں اضافے کا خدشہ ہو گا جس سے پناہ گزینوں کے لیے مختص کردہ وسائل پر بوجھ آئے گا اور علاقائی استحکام کمزور پڑ جائے گا۔

اعتماد اور امن کی بحالی

رپورٹ میں سرکاری اداروں کی بحالی اور پائیدار امن کے لیے سیاسی فریقین کے مابین مفاہمت کی کوششوں کو مضبوط بنانے، احتساب اور سلامتی کے شعبے میں اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے بھی زور دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، اس میں ملک کو علاقائی اور بین الاقوامی مدد اور تعاون کی فراہمی بشمول پابندیاں ہٹانے اور مشترکہ معاشی کوششوں کو بڑھانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

دونوں اداروں نے حالات کو بہتر بنانے کی غرض سے سرکاری اداروں میں اصلاحات کے علاوہ نجی شعبے کے کردار کو مضبوط بنانے اور محض ہنگامی حالات سے نمٹنے کے علاوہ جامع و پائیدار معاشی بحالی کے لیے امداد کی فراہمی پر بھی زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زراعت، صنعت اور معاشی شعبے میں ترقی بھی لانا ہو گی جس کے لیے پالیسی کے حوالے سے جامع فریم ورک درکار ہوں گے جن میں تنازعات سے بچنے اور استحکام برقرار رکھنے پر خاص توجہ دی جانا ضروری ہے۔

Live مہنگائی کا طوفان سے متعلق تازہ ترین معلومات