اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جولائی 2025ء) دنیا بھر میں رنگوں کو نہ صرف جمالیاتی خوبصورتی بلکہ ذہنی صحت، تھراپی اور علاج کے ''مؤثر ذریعے‘‘ کے طور پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق رنگ انسانی دماغ اور جذبات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
رنگوں کا نفسیاتی اور جذباتی اثر
سردیوں میں گہرے رنگ جیسے سرخ، نارنجی، یا خاکی لباس گرمی کا احساس دلاتے ہیں۔
صبح کے وقت ہلکے رنگ توانائی بخشتے ہیں، جبکہ رات کو نیلا یا ارغوانی رنگ سکون فراہم کرتے ہیں۔نیلا رنگ ذہنی سکون، اعتماد اور ارتکاز کو بڑھاتا ہے، سرخ رنگ جوش، توانائی اور بعض اوقات خطرے کا احساس دلاتا ہے، جبکہ سبز رنگ آنکھوں کو راحت دیتا ہے اور فطرت سے جڑنے کا احساس پیدا کرتا ہے۔
(جاری ہے)
ہسپتالوں میں سبز اور نیلے رنگوں کا استعمال مریضوں کو پرسکون رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
پولین ولس اپنی کتاب ''کلر تھیراپی: دی یوز آف کلر فار ہیلتھ اینڈ ہیلنگ‘‘ میں لکھتی ہیں کہ کمرہ، دفتر، یا بستر یا جن جگہوں پر انسان وقت گزارتے ہیں، وہاں کے رنگ ذہنی، جسمانی اور جذباتی کیفیت پر براہِ راست اثرات مرتب کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر ماحول میں رنگوں کا سمجھداری سے انتخاب کیا جائے تو سکون، توانائی اور توازن حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق نیلا رنگ دماغی کام اور تجزیاتی سوچ کے لیے بہترین ہے، سبز توازن اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، جبکہ سرخ رنگ اگر درست جگہ استعمال ہو تو تحریک دیتا ہے۔ پیلا رنگ تخلیقی صلاحیت بڑھانے میں مددگار ہے لیکن کسی ایک رنگ کا زیادہ غلبہ ذہنی دباؤ یا تھکن کا باعث بن سکتا ہے۔
رنگوں کا عملی استعمال
تحقیق کے مطابق رنگوں کے اثرات مختلف ماحول میں مختلف انداز سے ظاہر ہوتے ہیں۔
پرائمری کلاس رومز میں پیلا، نارنجی اور سبز رنگ مثبت اثر ڈالتے ہیں، جبکہ امتحانی کمروں میں نیلا یا ہلکا سبز رنگ کارکردگی بہتر بناتا ہے۔ ہسپتالوں کی انتظار گاہوں میں ہلکے پیسٹل رنگ بے چینی کم کرتے ہیں، جبکہ آپریشن تھیٹرز میں نیلا اور سبز رنگ سکون اور بحالی میں مدد دیتے ہیں۔رنگوں کے ذریعے علاج کی ماہر ڈاکٹر عالیہ آفتاب ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”یہ سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ رنگ انسانی زندگی پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔
قدرت نے ہماری دنیا صرف سیاہ و سفید نہیں بلکہ رنگوں سے بھرپور بنائی ہے اور انہی رنگوں کی طاقت کو سمجھ کر ہم اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔"انہوں نے ایک بچے کا واقعہ سنایا، جو شدید ڈپریشن میں مبتلا تھا اور مختلف ادویات استعمال کر رہا تھا۔ ڈاکٹر عالیہ نے اسے نیلا لباس پہننے، نیلے آسمان کے نیچے سانس لینے اور اس کے کمرے کے پردے اور بیڈ شیٹ کو نیلے اور سفید رنگ میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔
وہ بتاتی ہیں، ''چند دنوں میں اس کی حالت بہتر ہو گئی اور آج وہ بچہ ایف سی کالج کا طالب علم ہے۔‘‘ایک اور واقعے میں اسلام آباد سے ایک معمر خاتون شدید غصے اور بلڈ پریشر کے مسئلے کے ساتھ ان کے کلینک آئیں اور پہلی ملاقات میں ہی غصے میں پیپر ویٹ پھینک دیا۔ ڈاکٹر عالیہ کے مطابق وہ خاتون ماضی میں خودکشی کی کوشش بھی کر چکی تھیں اور ان کا علاج بھی رنگوں کے ذریعے علاج کیا گیا، ''انہیں سکون آور رنگوں کو سانس کے ذریعے اندر لینے اور منفی رنگوں کو خارج کرنے کی مشقیں کروائی گئیں۔
کچھ ہی عرصے میں ان کی حالت بہتر ہو گئی اور وہ زندگی سے دوبارہ جڑ گئیں۔‘‘ڈاکٹر عالیہ کے مطابق رنگوں میں توانائی ہوتی ہے، جو انسانوں کے جذبات اور جسمانی کیفیت پر اثر ڈالتی ہے۔ سرخ رنگ بلڈ پریشر بڑھا سکتا ہے، جبکہ نیلا رنگ غصے اور اشتعال کو کم کرتا ہے۔ سبز رنگ ذہنی سکون دیتا ہے اور پیلا رنگ تخلیقی سوچ اور نئے آئیڈیاز کو ابھارتا ہے، خاص طور پر آرٹسٹ ذہن رکھنے والوں میں۔
وہ کہتی ہیں کہ رنگوں کی معنویت ثقافت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً جنوبی ایشیا میں سفید رنگ سوگ کی علامت ہے، جبکہ مغرب میں دلہنیں سفید لباس پہنتی ہیں۔ سیاہ رنگ بعض جگہوں پر دکھ اور بعض جگہ وقار کی علامت ہے۔ بلیک اور گرے رنگ کا زیادہ استعمال گھبراہٹ اور اضطراب پیدا کر سکتا ہے۔
وہ مشورہ دیتی ہیں کہ روزمرہ زندگی میں ہلکے اور سادہ رنگوں کو ترجیح دی جائے، کیونکہ تیز رنگ ذہنی دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔
وہ مثال دیتی ہیں کہ سفید پلیٹ میں رنگ برنگی سبزیاں اور پھل پیش کرنے سے نہ صرف دلکشی بڑھتی ہے بلکہ کھانے کی رغبت بھی بڑھتی ہے۔رنگوں کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت
ایف سی کالج میں آرٹ ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر سعدیہ کامران پاشا کہتی ہیں کہ رنگوں سے علاج کوئی نیا تصور نہیں بلکہ ایک قدیم روایت ہے۔ تین بنیادی رنگ سرخ، پیلا اور نیلا مل کر دوسرے ثانوی اور تکمیلی رنگ بناتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ لال رنگ اگرچہ دلہنوں کے لیے خوشی کی علامت ہے لیکن کسی بڑی عمر کی خاتون پر وہ رنگ غیر یقینی یا بے چینی کا تاثر دے سکتا ہے۔پیلا رنگ اُمید اور روشنی، مالٹا رنگ پختگی جبکہ نیلا رنگ امن و سکون کی علامت ہے۔ ان کے بقول رنگ حوصلہ دیتے ہیں، خوشی اور زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔ متنوع رنگوں سے بھرپور ماحول انسان کو پرمسرت رکھتا ہے، جب کہ یکساں اور پھیکے ماحول میں بسنے والے لوگ اکثر ذہنی اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پروفیسر سعدیہ مشورہ دیتی ہیں کہ رنگوں کے استعمال میں شعوری توازن ضروری ہے تاکہ وہ ہماری ذہنی اور جذباتی کیفیت کو مثبت طور پر متاثر کر سکیں۔
میری اینڈرسن اپنی کتاب ''کلر تھیراپی‘‘ میں لکھتی ہیں کہ رنگوں کو تعمیری طور پر تبھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جب وقت، جگہ اور مقدار کا خیال رکھا جائے۔ غلط استعمال کی صورت میں یہی رنگ منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
مثلاً کھانے کے کمرے میں سرخ رنگ مناسب نہیں کیونکہ یہ اشتعال اور بے چینی پیدا کر سکتا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر حبیب عالم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا کہ انسان کی رنگوں کی پسند اس کے ماحول سے متاثر ہوتی ہے۔ ساحل، صحرا، یا شہری بلند عمارات میں رہنے والوں کا رنگوں سے تعلق اور ترجیحات مختلف ہو سکتی ہیں۔
بچوں کو شوخ رنگ پسند آتے ہیں، جبکہ عمر رسیدہ افراد نسبتاً سنجیدہ یا میچور رنگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔رنگ تھراپی کے اصول
ماہرین کے مطابق رنگ تھراپی کوئی متبادل طریقہ علاج نہیں بلکہ ایک معاون طریقہ ہے جبکہ جسمانی بیماری کی صورت میں معالج سے رجوع ضروری ہے۔ ہر فرد میں توانائی کی کیفیت مختلف ہوتی ہے، اس لیے جو رنگ ایک شخص کے لیے مفید ہو، لازمی نہیں کہ وہ کسی دوسرے شخص پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے۔
ماہرین کے مطابق رنگوں کا استعمال بتدریج اور مستقل ہونا چاہیے جبکہ اس تناظر میں شدت یا جلد بازی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ کامیاب رنگ تھراپی کے لیے روزمرہ مشق اور ''مثبت نیت‘‘ نہایت اہم ہیں۔
ادارت: امتیاز احمد