ججز کیلئے مختص برتنوں میں کھانا کھانے پرملازمین کے خلاف ایکشن

بدتمیزی کے الزام میں ملازم کو نوکری سے برخاست کرنے کی سزا کی سفارش کردی گئی

Sajid Ali ساجد علی اتوار 20 جولائی 2025 21:04

ججز کیلئے مختص برتنوں میں کھانا کھانے پرملازمین کے خلاف ایکشن
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 جولائی 2025ء ) ججز کیلئے مختص برتنوں میں کھانا کھانے پرملازمین کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے بدتمیزی کے الزام میں ایک ملازم کے لیے نوکری سے برخاستگی کی بڑی سزا کی سفارش کردی گئی۔ ڈان نیوز کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے ججز ریسٹ ہاؤس جی او آر I میں مخصوص کراکری کے استعمال پر عملے کے خلاف اندرونی انکوائری کے بعد 4 ملازمین کو سرزنش کی سزا دینے کی سفارش کی تاہم ایک مسیحی ویٹر کو بدتمیزی کے ایک علیحدہ الزام پر نوکری سے برخاست کیے جانے کا سامنا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ 3 دسمبر 2024 کو پیش آیا جب عملے کے چند افراد کو ججز کے لیے مختص کراکری استعمال کرتے ہوئے ریسٹ ہاؤس کے سوئیٹ نمبر 6 میں دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے پکڑا گیا، عملے کو اس سے پہلے بھی کراکری کے قواعد سے متعلق تنبیہ جاری کی جا چکی تھی، انکوائری میں نامزد عملے کے افراد میں بیئرر/ویٹر سیموئل سندھو، ڈسٹنگ کولی فیصل حیات، سویپر شہزاد مسیح اور کاؤنٹر سٹاف محمد عمران شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اپنے دفاع میں مذکورہ افراد نے مؤقف اختیار کیا کہ ’انہوں نے وہ کراکری استعمال کی جو ججز کے گن مینوں اور ڈرائیوروں کے لیے مختص ہے‘، تاہم انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سیموئل سندھو سے جب اس بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے سینئر عملے کے ساتھ بدتمیزی اور گستاخی کا مظاہرہ کیا، جس کے باعث تحقیقات کے افسر ایڈیشنل رجسٹرار عثمان علی اعوان نے سندھو کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت عالیہ کے قواعد و ضوابط کے تحت "نوکری سے برخاستگی" کی بڑی سزا کی سفارش کی۔

رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ دیگر تینوں ملازمین نے کراکری کے استعمال کا اعتراف کیا جس پر ان کے لیے محض "سرزنش" کی معمولی سزا تجویز کی گئی جب کہ سندھو کے خلاف گواہوں کے بیانات اور ویڈیو فوٹیج سمیت واضح شواہد موجود ہیں، جس پر سیموئل سندھو کو 11 جولائی کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جس میں 10 روز میں اپنا جواب جمع کرانے کی مہلت دی گئی، عدم جواب کی صورت میں ان کے خلاف سخت سزا لاگو ہوگی۔

بتایا جارہا ہے کہ اگرچہ انکوائری انتظامی ضابطہ اخلاق پر مرکوز ہے لیکن اس کیس نے قانونی اور اخلاقی سطح پر بحث چھیڑ دی ہے، ایک وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ’اگر تمام ملزمان ایک جیسا عمل کر رہے تھے اور صرف ایک شخص جو کہ اقلیت سے تعلق رکھتا ہے اس کو برخاستگی کا سامنا ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے جو قانون کے سامنے مساوات کی ضمانت دیتا ہے، انکوائری کو ہر صورت میں شفاف اور غیر جانب دار ہونا چاہیے تاکہ امتیازی سلوک کا تاثر نہ ابھرے۔

اس معاملے پر ایک اعلیٰ عدالتی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اگرچہ عملے کو بارہا زبانی ہدایات دی گئیں مگر ریسٹ ہاؤس میں کراکری سے متعلق کوئی تحریری پالیسی نمایاں طور پر موجود نہیں ہے جس سے ضوابط کی غیر واضح اور من مانی تشریح کا دروازہ کھلتا ہے، یہ واقعہ اس بات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ عدالت جیسے حساس اداروں میں اندرونی قواعد و ضوابط واضح اور مساوی طور پر لاگو ہونے چاہییں تاکہ نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے امتیازی رویوں سے بچاؤ ممکن ہو‘۔