بلدیاتی انتخابات کیس، سندھ حکومت اور ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی درخواستیں سماعت کیلئے منظور،سپریم کورٹ کا سندھ حکومت کو ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف عبوری ریلیف دینے سے انکار ، سندھ میں 23 فروری،پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 13 مارچ کو کراسکتے ہیں،الیکشن کمیشن نے نیا شیڈول جمع کرادیا، کنٹونمنٹ بورڈز اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دائر درخواست بھی سماعت کیلئے منظور ،بلدیاتی انتخابات کی منسوخی کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہوگا‘ الیکشن کمیشن،حلقہ بندیاں برقرار رہیں تو صرف انتخابات کی تاریخ بدلے گی‘ کئی حلقہ بندیوں کی صورت میں نیا شیڈول جاری ہوگا‘ بیان

جمعرات 9 جنوری 2014 07:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔9جنوری۔2014ء) سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سندھ حکومت اور ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی درخواستوں کو سماعت کیلئے منظور کرلیا ہے تاہم سندھ حکومت کی جانب سے ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف عبوری ریلیف دینے سے انکار کردیا ہے اور تمام درخواستوں کی سماعت کیلئے 27 جنوری کی تاریخ مقرر کردی ہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے نیا شیڈول بھی جمع کرادیا ہے جس کے تحت کہا گیا ہے کہ سندھ میں 23 فروری جبکہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 13 مارچ کو کراسکتے ہیں اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی سمیت کئی مسائل کا الیکشن کمیشن کو سامنا ہے جبکہ تین رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دئیے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت تک تاخیر کا شکار نہیں ہونے چاہئیں۔

(جاری ہے)

بلدیاتی انتخابات کرانا الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے‘ ہم تمام معاملات کو تفصیل سے سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں‘ الیکشن کمیشن کے مطابق بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور تقسیم کیلئے ایک ماہ کا وقت درکار ہے جبکہ حلقہ بندیاں ختم ہونے سے بھی مسائل بڑھ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ عدالت نے کنٹونمنٹ بورڈز اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دائر درخواست بھی سماعت کیلئے منظور کرلی ہے اور الیکشن کمیشن‘ وفاقی حکومت اور اسلام آباد انتظامیہ سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردئیے ہیں اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور کو بھی (آج) جمعرات کو طلب کرلیا ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کیخلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حکومت نے سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قوانین بنائے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے 27 نومبر 2013ء اور بعدازاں یہ تاریخ 18 جنوری 2014ء رکھی گئی جس کے تحت 11 ہزار کاغذات نامزدگی داخل کرادئیے گئے ہیں۔

حلقہ بندیوں کے حوالے سے قانون میں اس وجہ سے جھول ہے کہ جلدی میں قوانین بنائے گئے۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ صرف قوانین میں ہی جھول ہے یا کہیں اور سے بھی دباؤ ہے۔ اس پر اے جی سندھ نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں صرف قوانین میں جھول ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قوانین بننے سے قبل ہی حلقہ بندیاں کرلی گئی تھیں اور یہ سب حلقہ بندیاں 1998ء کی مردم شماری کے نتیجے میں کی گئی تھیں جبکہ اب آبادی میں کافی حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔

اس دوران وقفہ ہوا۔ وقفے کے بعد اے جی سندھ نے دوبارہ دلائل کا آغاز کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے ترمیمی آرڈیننس کے حوالے سے چارٹ بنالیا ہے اس پر اے جی نے بتایا کہ بلدیاتی آرڈیننس میں تیسری ترمیم 13 دسمبر 2013ء کو کی گئی جسے آفیشل گزٹ کا حصہ بنایا گیا۔ تین ترامیم اہم تھیں۔ سیکشن تھری پر ہائیکورٹ نے اعتراض کیا تھا۔ شہری علاقے کو دیہاتی علاقے اور دیہاتی علاقے کو شہری علاقے کا حصہ بنانے کا معاملہ درپیش تھا۔

سیکشن 4 سی پر مسئلہ تھا جس میں مرنے والے امیدوار کی جگہ ضمنی انتخابات کرانے کیلئے کہا گیا ہے۔ اس میں امیدواروں کیلئے ضروری قرار دیا گیا تھا کہ پینل میں لڑنا پڑے گا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کا کہنا یہ کہ اگر وہ 9 بندے اکٹھے نہیں کرسکتے تو الیکشن نہیں لڑ سکتے اس کیلئے کوئی اور بھی تو حل نکالا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے یہ سب کیا الیکشن کمیشن کے کہنے پر کیا تھا؟ اس پر اے جی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نہیں کہا تھا ،انہوں نے صرف دو چیزیں کرنے کو کہا تھا۔

2001ء میں بھی پینل کی ضرورت تھی وہاں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن تھے۔ الیکشن کمیشن سہولت دے ہم پینل کو ہٹانے کیلئے تیار ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے ترمیم کی ہے تو اب دفاع بھی آپ نے کرنا ہے۔ زمینی حقائق ہی رکاوٹ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص آزادانہ طور پر لڑنا چاہتا ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟۔ اے جی نے کہا کہ ایک ایک حلقے سے 9 امیدوار منتخب ہوتے ہیں‘ 3 سپیشل اور 6 جنرل سیٹیں ہیں‘ ووٹرز کیلئے کنفیوژن پیدا ہوجاتی ہے۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ فلوریڈا میں نہیں کراچی میں انتخابات کروارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی نشانات یاد کرانا سیاسی جماعتوں کا درد سر ہے۔ وہ اشتہار بازی کرتی ہیں اور لوگوں کو اپنا نشان بتاتی ہیں۔ اے جی نے کہاکہ ووٹ شمار کرنے میں مسئلہ ہوگا وہ حل ہوجائے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سیکشن 8 میں ترمیم کی گئی۔ یونین کونسل کی آبادی کم کرکے مزید کمیٹیاں قائم کردی تھیں اسے بھی چیلنج کیا گیا۔

پہلے 40 سے 50 ہزار آبادی رکھی گئی اب اسے کم کرکے کہا گیا کہ 10 سے 40 ہزار تک کی آبادی میں یونین کونسل کا انتخاب ہوسکتا ہے۔ الیکٹورل کالج میں اضافہ ہوگیا ہے اب وائس چیئرمین اور چیئرمین کے تقرر میں ووٹ زیادہ حاصل کرنا پڑیں گے۔ پہلے یونین کونسلیں کم تھیں اب زیادہ ہیں۔ 21 نومبر 2013ء کے تحت 40 سے 50 ہزار کی آبادی ایک یونین کونسل کیلئے ضروری تھی۔

حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہم نے حقائق پر مشتمل چارٹ بنادیا ہے جو کہ درخواست کا حصہ ہے۔ کسی جگہ 40 ہزار‘ کہیں 32 ہزار‘ کہیں 30 ہزار کی آبادی تھی جو پہلے کے قانون کی خلاف ورزی تھی۔ یہ کراچی میں ہی مسئلہ نہیں تھا پورے صوبے میں تھا۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ آپ آبادی کم کرکے یونین کونسلیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ اے جی نے کہا کہ آپ گڈاپ ٹاؤن کا جائزہ لیں اس کا رقبہ بہت پھیلا ہوا ہے‘ کل آبادی 4 لاکھ 39 ہزار 675 ہے۔

رقبہ 2194 مربع کلومیٹر ہے۔ یونین کونسل 4 میں 45 ہزار 998 آبادی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کیسے بنا ہے یہ ہمارے سوال کا جواب نہیں ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ یونین کونسل کی مختلف آبادیوں سے مختلف ہونے والے لوگوں کا الیکٹورل کالج مختلف ہوجائے گا یہ امتیازی سلوک نہیں ہوگا۔ اے جی نے کہا کہ اصل مسئلہ سہولیات کی فراہمی کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں اس طرح کی کوئی چیز موجود نہیں ہے‘ قانون خاموش ہے۔

اے جی نے کہا کہ 50 ہزار ووٹوں کا فرق گذشتہ انتخابات میں رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے اب آپ تبدیلیاں کررہے ہیں۔ اے جی نے کہاکہ یہ تبدیلیاں کردی گئی ہیں‘ زمینی حقائق کے مطابق یہ تعداد بڑھی ہوئی تھی۔ 40 ہزار سے کم آبادی یونین کونسل نہیں بن سکتی تھی۔ 2001ء‘ 2004ء‘ 2005ء اور 1984ء کے انتخابات کیساتھ ساتھ عام انتخابات بھی غلط تھے،مردم شماری ہی نہیں کرائی گئی میں کہا گیا کہ مردم شماری 1998ء کی ہوگی ۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ مردم شماری کیوں نہیں کراتے کھل کر بات کریں ۔ اے جی نے کہا کہ 280 یونین کونسلیں ہیں جس میں 15کمیٹیوں کی آبادیوں میں فرق ہے اور فرق 10سے 50ہزار کا ہے ۔ چیف جسٹس نے نے کہا کہ ٹاؤن کمیٹی میں آبادی کا فرق ہے اے جی نے کہا ک ہم نے ٹاؤن کمیٹی والا فارمولا باقی یونین کونسلوں پر اپلائی کیا ہے۔ یونین کمیٹی کے چیئرمین اور 30فیصد خواتین نشستیں ، پانچ فیصد غیر مسلم ، لیبر ، کسان وغیرہ شامل ہیں یہ میئر اور ڈپٹی میئر بنانے کا ایکٹورل کالج ہے ۔

میٹرو پولیٹن کے میئر کے منتخب ہونے کیلئے یہ اصول لاگو ہوتا ہے جبکہ یونین کونسل کا اپنا طریقہ کار ہے ۔ ہائی کورٹ فیصلے میں حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دیا گیا سیکشن 18 کے تحت پینل کی تشکیل کا معاملہ بھی کالعدم قرا دیا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے آرڈیننس کو ہی کالعدم قرار دیا ۔ اے جی نے کہا کہ جی ہاں یہ ابھی قانون نہیں بنتا ہے آپ اپنی مشکل بتائیں ہم اس کا جائزہ لیں گے ۔

اے جی نے کہا کہ کچھ قانونی نکات اٹھائے ہیں اس کو دیکھ لیں پینل کا معاملہ برقرار رکھا جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم درخواست سماعت کے لئے منظور کرلیتے ہیں تو پھر آپ کیا کہتے ہیں ۔ اے جی نے کہا کہ انتخابات قریب ہیں ہم بھی چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد انتخابات ہو جائیں ۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر آپ نے انتخابات کرانے کا کہا ہے اس سے قبل تو آپ نہیں کرانا چاہتے تھے ۔

اے جی نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بھی یہی کہا تھا یہ صحیح انتخابات نہیں ہوں گے ۔ انتخابی عمل مکمل ہونے دیں الیکشن نہ روکا جائے بے شک اس درخواست کی سماعت ہوتی رہے ۔ اکرم شیخ نے کہا کہ دو ہائی کورٹس نے فیصلے دیئے ہیں اور حد بندیاں کالعدم قرار دی گئی ہیں،اگر حد بندیاں ختم کردی جاتی ہیں تو انتخابات کیسے ہوں گے،ہمارے لئے انتخابات کرانا ممکن نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم فیصلہ معطل کردیں تو کیا آپ انتخابات کرادینگے؟۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ 18 جنوری کی سندھ کے لیے تاریخ دی ہے اور 30 جنوری پنجاب کے لیے دی ہے ان تاریخوں پر انتخابات نہیں ہوسکتے پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کو تین ہفتے چاہئیں،سندھ حکومت کو دو ہفتے چاہئیں۔ایک ہفتہ بیلٹ پیپرز کی تقسیم کیلئے چاہئے۔سندھ کے لیے 23 فروری کی تاریخ چاہتے ہیں،18 جنوری 2014ء سے 4ہفتے شروع ہوں گے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے بیلٹ پیپرز بھیجے ہوئے ہیں تین ہفتے آپ کو چاہئیں،آپ کو کل ملا کر ایک مہینہ چاہیے ۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ 23 فروری کی تاریخ دیں۔اکرم شیخ نے کہا کہ پنجاب میں 13 مارچ کی تاریخ کی ضرورت ہے ۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ہم نے درخواست میں نوٹ دے رکھا ہے اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم ان نوٹوں سے تنگ آچکے ہیں۔

ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیئے کہ عدالت نے کہا ہے کہ ہم آپ کی درخواست بھی سماعت کیلئے منظور کررہے ہیں۔فروغ نسیم نے کہا کہ جلد سماعت بھی کی جائے اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے اہم ایشوز کا معاملہ ہے جس کا حل ضروری ہے انتخابات ابھی ممکن نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایک سیاسی جماعت سے متعلقہ ہیں ہم نے الیکشن کمیشن کا نوٹ دیکھ لیا ہے آپ کے 148A کے مینڈیٹ کے حوالے سے تحفظات ہیں، حکومت نے اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کیا ہے،آپ چاہتے ہیں کہ عدالت انہیں ہدایت جاری کرے ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ انتخابات کرانے دینگے،انتخابات شفاف ہوں گے ہم آپ کے ایشوز کا بھی جائزہ لینگے،انتخابی عمل متاثر یا تاخیر کا سبب نہیں بنے گا ۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ہم پورے سندھ اور پاکستان بھر کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں سکروٹنی کا عمل بھی مکمل ہونا ہے،ہم نہیں جانتے کہ کتنی یونین کونسلیں ہوں گی اور امیدواروں کی پوزیشن کیا ہوگی ؟لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ تمام تر معاملات الیکشن کمیشن مکمل کرائے گا حکومت کا اس سے کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ابھی ریلیف نہ دیں جلدی سماعت کرکے فیصلہ دے دیں۔

بین الاقوامی قوانین ، فیصلے بھی آپ کے روبرو رکھنے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری ریلیف کوچھوڑیں الیکشن کا کیا ہوگا ۔ اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سکروٹنی کا عمل ابھی ہونا ہے،سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ درست ہے اور جو ہدایات دی گئی ہیں اس پر عمل کیا جائے ۔ پیر کو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آرہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی اس کو تفصیل کے ساتھ نہیں سن رہے ابھی تو ابتدائی سماعت ہے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ اگر پینل سسٹم ختم کردیا گیاتو معاملہ نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ایم کیو ایم اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی قانونی معاملات پر اکٹھے ہیں،مل کرعدالت آتے ہیں اور یہ ہمیں پتہ چل گیا ۔ فنشکنل مسلم لیگ کے وکیل پیش ہوئے اور کہا کہ انہوں نے کراچی رجسٹری میں درخواست دی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وکیل ہیں،زبانی بات نہ کریں درخواست سامنے ہوگی تو آپ کو سن لیں گے۔چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے دلائل سنے ہیں، فروغ نسیم کو بھی سن لیا ہے اکرم شیخ ، سیکرٹری الیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کو سن لیا ہے جوایشو کے حوالے سے کافی بے تاب ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف جو اپیل دائر کی ہے وہ قبول کی جاتی ہے جس میں ہائی کورٹ نے ان کیخلاف فیصلہ دیا تھا۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ قوانین میں سقم ہے‘ اسے درست کرنا چاہتے ہیں۔ حد بندیاں بھی اس قانون کے تحت کی گئی تھیں۔ صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قوانین مرتب کرلئے ہیں اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن سے مشاورت بھی کرلی ہے۔

سپریم کورٹ سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرے۔ الیکشن کمیشن نے سندھ میں شیڈول جاری کیا تھا اور وہاں 18 جنوری کو انتخابات ہونا ہیں۔ گذارشات سننے کے بعد درخواست سماعت کیلئے منظور کی جاتی ہے۔ عبوری ریلیف کیلئے سندھ حکومت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرانے کا کہا ہے کیونکہ الیکٹورل کالج مکمل ہوچکا ہے۔ 11 ہزار کاغذات نامزدگی وصول ہوچکے ہیں اب ان کی جانچ پڑتال کا مرحلہ شروع ہے۔

اگر یہ فیصلہ معطل نہ کیا گیا تو الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کراسکے گا۔ اکرم شیخ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے بتایا کہ یہ الیکشن کمیشن کیلئے 18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانا ممکن نہ ہوگا کیونکہ بہت سے مسائل کا سامنا ہے جس میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے پرنٹنگ کارپوریشن کیلئے 3 ہفتے کا وقت مانگا ہے جبکہ اس کی تقسیم کیلئے ایک ہفتے کی ضرورت ہوگی۔

فروغ نسیم نے کہا کہ اس مرحلے پر ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل نہ کیا جائے اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی حد بندیوں کو اس گراؤنڈ پر کالعدم قرار دیا ہے کہ یہ کام الیکشن کمیشن کرائے۔ اس کنفیوژن کی وجہ سے یونین کونسلوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے جس سے بہت سے لوگ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے ہیں۔ انصاف کیلئے ضروری ہے کہ ان تمام معاملات کو کسی قریب کی تاریخ پر مقرر کیا جائے اور اس کا حتمی فیصلہ کیا جائے۔

یہ تمام معاملات 27 جنوری کو سنے جائیں گے۔ پنجاب کے معاملے بارے کیس کی سماعت پیر کو ہوگی۔ادھرالیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی منسوخی کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہوگا حلقہ بندیاں برقرار رہین تو صرف انتخابات کی تاریخ بدلے گی نئی حلقہ بندیوں کی صورت میں نیا شیدول جاری ہوگا۔ بدھ کے روز الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے بلدیاتی انتخابات کی منسوخی کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا جائے گا۔

اگر عدالت نے سندھ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کیا اور حلقہ بندیاں برقرار رہیں تو صرف انتخابات کی تاریخ آگے بڑھائی جائے گی اور جو کاغذات نامزدگی جمع ہوئے ہیں ان پر ہی انتخابات ہوں گے تاہم اگر حلقہ بندیاں تبدیل ہوئیں اور نئی حلقہ بندیاں کی گئیں تو پھر نیا شیڈول جاری ہوگا اور امیدواروں کو کاغذات نامزدگی دوبارہ جمع کرانے پڑیں گے۔