مذاکرات پہلی ترجیح ہیں،حکومت کی پالیسی وہ نکتہ ہے جس پر اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا،چوہدری نثار،ملکی وقار کو مدنظر رکھ کر طالبان سے مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے گا ا، جو گروپس حکومت کی مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لیں گے ان سے مذاکرات کئے جائیں گے، گولی سے جواب دینے والوں سے جنگ کریں گے، مشرف کو واقعی مسئلہ ہوا تھا،پرویز مشرف کی اے ایف آئی سے روانگی کا علم وہاں کی انتظامیہ کو بھی نہیں تھا ، کا روٹ تبدیل کیا گیا اور نہ ہی روٹ پر رینجر کو لگایا گیا بلکہ انہیں اے ایف آئی سی میں ہنگامی طور پر منتقل کیا گیا اور سب سے پہلے اس کی مجھے اطلاع دی گئی، نادرا میں بے ضابطگی اور بدعنوانی کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے آڈٹ کروایا جائے گا، میڈیا سے غیر رسمی گفتگو

پیر 13 جنوری 2014 07:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13 جنوری ۔2014ء)وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ مذاکرات اولین ترجیح ہیں،حکومت کی پالیسی وہ نکتہ ہے جس پر آل پارٹیز کانفرنس میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا،ملکی وقار کو مدنظر رکھ کر طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا جائے گا اور جو گروپس مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لیں گے ان کے ساتھ ہی مذاکرات کئے جائیں گے، جو طالبان گروپ مذاکرات کا جواب گولی سے دیں گے ان سے جنگ کریں گے،پرویز مشرف کو واقعی مسئلہ ہوا تھا، مشرف کی اے ایف آئی سے روانگی کا علم وہاں کی انتظامیہ کو بھی نہیں تھا ، مشرف کے اے ایف آئی سی جانے کے بعد وہاں آرمی تعینات ہوئی، ان کا روٹ تبد یل کیا گیا،نہ ہی روٹ پر رینجر زکو لگایا گیا بلکہ انہیں اے ایف آئی سی میں ہنگامی طور پر منتقل کیا گیا اور سب سے پہلے اس کی مجھے اطلاع دی گئی،سابق صدر کا نام سپریم کورٹ کی ہدایت اور ایف آئی اے کی سفارش پر ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھااسی وجہ سے وزارت داخلہ نے صہبا مشرف کی درخواست قبول نہیں کی،نادرا میں ہونے والی بے ضابطگی اور بدعنوانی کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے آڈٹ کروایا جائے گا جبکہ گزشتہ دور حکومت میں ہونے والی 8000بھرتیوں کا کارکردگی کی بنیاد پر پرفارمنس آڈٹ کروایا جائے گا،ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پنجاب ہاؤس میں میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ نادرا پاکستان کا نہیں بلکہ اس پورے خطے کا منفرد رجسٹریشن کا ادارہ ہے اور یہ بذات خود انتہائی حساس معلومات کا مرکز جس کو شفاف انداز میں چلانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔اس ادارے کو قومی ادارہ بنائیں گے تاہم گزشتہ پانچ برس میں اس ادارے کو دانستہ طور پر جس انداز میں نقصان پہنچایا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ چےئرمین نادرا کے لئے کھلا تقابلی امتحان کیلئے اشتہار دیا جائے گا اور میرٹ اور شفافیت کو مدنظر رکھ کر اس پوسٹ پر تقرری کی جائے گی۔

سابقہ چےئرمین کے اچانک استعفے کی وجہ سے یہ چارج عارضی طور پر ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کو دیا گیا،مگر گزشتہ چھ ماہ سے بورڈ کا اجلاس نہیں ہوا جو اس ماہ کی 15تاریخ کو ہوگا اور اس اجلاس میں قائم مقام چےئرمین نادرا کا فیصلہ کیا جائے گا اور یہ قائم مقام چےئرمین اس وقت تک کام کرے گا جب تک مذکورہ عمل کے تحت مستقل چےئرمین نادرا کی تقرری نہیں کرلی جاتی۔

ان کا کہنا تھا کہ نادرا کے بورڈ کی میٹنگ گزشتہ چھ ماہ سے نہیں ہوئی جس کی وجہ سے کافی کام ادھورے پڑے ہیں جبکہ اربوں روپے کے سرمایے سے کھڑے ہونے والے اس ادارے میں آج تک آڈٹ نہیں کروایا گیا،جس کا وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے اور یہ آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کریں گے۔چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران اس ادارے میں سفارشی اور پسند وناپسند کی بنیاد پر8000سے زائد افراد کو بھرتی کیا گیا،حکومت کسی کی نوکری کی دشمن نہیں ،تاہم ان ملازمین کا پرفامنس آڈٹ کروایا جائے گا اور نادرا بورڈ ہی اس حوالے سے فیصلہ کرے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نادرا کے بورڈ کا اجلاس تواتر سے ہوا کرے گا اور اس کیلئے ہم نے عمل شروع کردیا ہے،آڈٹ کے حوالے سے نادرا انتظامیہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی اور اس حوالے سے ہم نادرا میں ممبر آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کی تقرری کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ حکومت مذاکرات کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کے دئیے ہوئے مینڈیٹ پر عمل پیرا ہے اور اب بھی مذاکرات پہلی ترجیح ہے،ایک مرتبہ تو مذاکرات کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے تاہم ڈرون حملے کی وجہ سے یہ عمل تعطل کا شکار ہوگیا مگر ہم نے خاموشی اختیار نہیں کی اور درپردہ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں،ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ گزشتہ12,13برسوں کے دوران برسراقتدار رہے وہی لوگ آج ڈرون حملوں،مذاکرات اور طالبان کیخلاف مذاکرات کے حوالے سے حکومت کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں،میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ ان لوگوں نے اپنے اقتدار کے دوران ڈرون حملے کیوں نہیں روکے اور طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں شروع کئے یا شدت پسندوں کیخلاف آپریشن کیوں نہیں کیا۔

ہمارا مقابلہ ایک ایسی طاقت کے ساتھ ہے جس کا نہ تو کوئی ظاہری وجود ہے اور نہ ہی وہ کسی ایک جگہ پر موجود ہے بلکہ تمام شدت پسند بٹے ہوئے ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں ہیں،ان کا کہنا تھا کہ ہمارے شہروں کا یہ حال ہے کہ صرف وفاقی دارالحکومت میں 98000سے زائد لوگ غیر رجسٹرڈ تھے جنہیں اب رجسٹرڈ کیا جارہا ہے،پہلے ہمیں اپنے شہروں کو تو محفوظ بنانا چاہئے،وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی آج بھی پہلی ترجیح مذاکرات ہے لیکن تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کی موجودہ قیادت ملافضل اللہ اور شاہد اللہ شاہد حکومت کے ساتھ مذاکرات سے مکمل انکاری ہیں،تاہم اس کے باوجود حکومت مذاکرات کے حق میں ہے اور کچھ طالبان گروپس کے ساتھ یہ کوششیں جاری ہیں،مذاکرات کے حوالے سے مولانا سمیع الحق اور مذہبی شخصیات سمیت مختلف لوگ اپنا حصہ ڈال رہے ہیں مگر حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر داخلہ طالبان سے مذاکرات کیلئے فوکل پرسن ہے،اس لئے جو بھی اس عمل میں مدد کرے گا وہ پاکستان کی صحیح معنوں میں خدمت ہے۔

چوہدری اسلم کی شہادت کا واقعہ افسوسناک ہے اور واقعہ کراچی میں ہوتا ہے اور تنقید کا نشانہ وفاق کو بنایا جاتا ہے،پہلے کہا گیا کہ یہ ریموٹ کنٹرول دھماکہ ہے پھر خودکش پر آگئے،اس کے بعد جب وفاقی تحقیقاتی ادارے کے پاس معاملہ آیا تو انہوں نے چند گھنٹوں میں خودکش بمبار کی بھی نشاندہی کردی جو گزشتہ کئی برس سے کراچی میں مقیم تھا اور اس کا والد کراچی میں ایک مدرسہ چلاتا ہے۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا”جو طالبان گروپس حکومت پاکستان کی مذاکرات کی پیشکش کا جواب مذاکرات کے ساتھ دیں گے ہم پوری سنجیدگی و دل وجان اور ذمہ داری سے مذاکرات کریں گے مگر جو گروپس ہماری مذاکرات کی پیشکش کا جواب گولی سے دیں گے تو ہم ان سے جنگ کریں گے اور ان کا تعاقب کریں گے“۔دہشتگردی کیخلاف جنگ میں جو قیمت فاٹا کی غیور عوام اور بالعموم پاکستانی عوام نے ادا کی ہے،اب وقت آگیا ہے کہ اس آگ اور خون کی ہولی سے نکلیں اور اس پاک سرزمین کو جنگ اور شدت پسندی سے نجات دلائیں،جو لوگ مذاکرات سے انکاری ہیں ان سے میں کہتا ہوں کہ اسلام کا راستہ فلاح ونیکی کا راستہ ہے،بدلہ لینا ہمارے مذہب میں جائز ہے اور اس کی اجازت ہے مگر ایک دوسرے کو معاف کرنا اللہ تعالیٰ کے سامنے اس سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے،جو لوگ مذاکرات کی بجائے بدامنی،قتل وغارت اور دھماکوں کی پالیسی کو اہمیت دے رہے ہیں ان میں اور بیرونی طاقتوں میں کیا فرق ہے،جنہوں نے اپنے مقاصد کی خاطر اس خطے کی عوام کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ اور خون کی ہولی میں دھکیل دیا ہے،آئندہ چند روز میں مذاکرات کے حوالے سے بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ممنوعہ وغیر ممنوعہ اسلحہ لائسنس ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں جاری کئے گئے اور ان میں ہزاروں کی تعداد ایسی ہے جن کیلئے تصدیق کے عمل کو نظرانداز کردیاگیا اسلئے اس سارے عمل کو شفاف طریقے سے تحقیقات کی جائیں گی اور اس کے بعد ایسے لائسنسوں کو منسوخ کیا جائے گا جن کا اجراء قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر نہیں کیا گیا اور اس کے بعد اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا عمل شروع ہوگا۔

سعودی وزیرخارجہ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس دورے کے دوران کہیں بھی جنرل مشرف کا ذکر نہیں آیا بلکہ سعودی شخصیات کے ساتھ دوروں اور ملاقاتوں کا مقصد گزشتہ پانچ برس کے دوران پیدا ہونے والی سردمہری کو ختم کرنا اور گرمجوشی پیدا کرنا ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں سعودی وزیرداخلہ بھی پاکستان آئیں گے۔پرویز مشرف کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی گاڑی میں ان کا چیف سیکورٹی آفیسر کرنل ریٹائرڈ الیاس اور وفاقی پولیس کا ایس پی ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا،حقیقتاً پرویز مشرف کو دل کی تکلیف ہوئی اور اس وقت تین تجاویز دی گئیں کہ انہیں پولی کلینک،پمز یا شفاء انٹرنیشنل لے جایا جائے تاہم ان کے سیکورٹی آفیسر کی رائے تھی کہ اے ایف آئی سی بہتر ہوگا اور اس کی سب سے پہلے اطلاع مجھے دی گئی،انہوں نے کہا کہ روٹ تبدیل کئے جانے اور رینجرز کو روٹ پر لگانے کے حوالے سے قیاس آرائیاں غلط اور بے بنیاد ہیں،اگر ایسا ہوتا اے ایف آئی سی میں پہلے سے اس کا بندوبست ہوتا وہاں انہیں سٹریچر پر لے جایا گیا اور شدید ہنگامی حالت میں علاج کیلئے شفٹ کیا گیا۔

سابقہ صدر کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حوالے سے صہبا مشرف کی جانب سے دی گئی درخواست کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ صہبا مشرف نے درخواست دی تھی تاہم ہم نے اس کے جواب میں بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ،سپریم کورٹ آف پاکستان اور غداری کیس میں ایف آئی اے کی سفارش پر ان کا نام ای سی ایل پر رکھا گیا ہے لہٰذا اگر سندھ ہائیکورٹ یہ آرڈر دے بھی دیتی ہے تو بھی ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جائے گا۔