73کا آئین دستور ساز اسمبلی کا بنایا ہوا نہیں،محض ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جس کی خلاف ورزی پر غداری کا الزام نہیں لگایا جاسکتا ،مشرف کا دعوی ،عدالت نے مختصر فیصلے میں بھی سنگین غداری کے الزام پر ٹرائل کا حکم نہیں دیا ، ماضی میں جنرل ضیاء نے اس آئین کو معرض التواء میں رکھا، دوسری مرتبہ 12 اکتوبر 1999 ء کو درخواست گزار نے ایسا کیا اور وفاقی حکومت نے اس پر کوئی سنگین غداری کی کارروائی نہیں کی ،نظرثانی کی درخواست میں موقف

پیر 13 جنوری 2014 07:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13 جنوری ۔2014ء) سابق صدر پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ 1973 ء کا آئین دستور ساز اسمبلی کا بنایا ہوا نہیں بلکہ محض ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جس کی خلاف ورزی پر غداری کا الزام نہیں لگایا جاسکتا جبکہ ماضی میں جنرل ضیاء الحق اور خود ان کی طرف سے 12 اکتوبر 1999 ء کی آئین کو معرض التواء میں رکھنے پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور عدالتوں و پارلیمنٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت ان اقدامات کو جائز قرار دیا حتیٰ کہ یہ آئین بھی ایک غاصب جنرل یحیٰ خان کی سرپرستی میں تیار کیا گیا۔

یہ موقف انہوں نے سپریم کورٹ میں 3 نومبر 2007 ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کے بارے میں 2009 ء میں جاری کئے گئے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست میں اختیار کیا ہے توقع ہے کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی سابق صدر کی اس درخواست کی سماعت کیلئے 14 رکنی بنچ تشکیل دیں گے جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم چیمبر میں کارروائی کے دوران اس نظرثانی کی درخواست کو سماعت کیلئے منظور کر چکے ہیں اور انہوں نے اس درخواست پر رجسٹرار آف کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کو مسترد کردیا تھا۔

(جاری ہے)

اس درخواست میں 1973 ء کے آئین کی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے جس کے بارے میں سابق آرمی چیف پر الزام ہے کہ انہوں نے اسے معطل اور پامال کیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ آئین محض پارلیمان کا ایکٹ ہے کیونکہ اسے صرف مغربی پاکستان کی اسمبلی نے منظور کیا اور مشرقی و مغربی پاکستان کی مشترکہ دستور ساز اسمبلی پہلے ہی ختم ہوچکی تھی۔ مشرف نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس آئین کی تشکیل میں دستور ساز اسمبلی کے ارکان کی واضح اکثریت نے حصہ نہیں لیا اس لئے یہ دستاویز پارلیمنٹ کا ایکٹ ہے اور اس کی خلاف ورزی کو غداری نہیں کہا جاسکتا۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں بھی ان کے خلاف سنگین غداری کے الزام پر ٹرائل کا حکم نہیں دیا تھا۔ ماضی میں 5 جولائی 1977 ء کو جنرل ضیاء الحق نے اس آئین کو معرض التواء میں رکھا دوسری مرتبہ 12 اکتوبر 1999 ء کو درخواست گزار نے ایسا کیا اور وفاقی حکومت نے اس پر کوئی سنگین غداری کی کارروائی نہیں کی انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ اس حقیقت سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہے کہ موجودہ آئین جس دستور ساز اسمبلی کا بنایا ہوا ہے اس کا انتخاب بھی جنرل یحیٰ خان نے کیا تھا جسے بہت سے لوگ ایک بڑا غاصب قرار دیتے ہیں۔

مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کے الزام میں کارروائی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین نومبر 2007 ء سے پہلے پانچ مرتبہ آئین نے انحراف کی عدالتوں اور پارلیمانی ایوانوں نے پاکستان کی سلامتی اور نظریہ ضرورت کی بنیاد پر توثیق کی۔ اسی طرح 3 نومبر 2007 ء کو آئین سے انحراف بھی نظریہ ضرورت کے تحت کیا گیا ۔ ظفر علی شاہ کیس میں عدالت نے 12 اکتوبر 1999 ء کے اقدام کو درست قراردیا حالانکہ اس وقت آئین کے پچیس آرٹیکلز کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔

متعلقہ عنوان :